افغانستان کی جنگ: اگست 2019 میں کتنا جانی نقصان ہوا؟


کابل میں حملے کے بعد کا ایک منظر

بی بی سی کی تحقیق کے مطابق اگست کے مہینے میں 611 واقعات میں 2307 افراد ہلاک ہوئے

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ افغانستان میں اگست کے مہینے میں پرتشدد حملوں اور کارروائیوں میں روزانہ اوسطاً 74 افراد ہلاک ہوئے جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے۔

یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان میں پرتشدد واقعات کے نہ رکنے والے سلسلے سے ملک کا بیشتر حصہ متاثر ہو رہا ہے جبکہ 18 سال کی طویل جنگ کے بعد امریکہ افغان امن مذاکرات بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

بی بی سی کی تحقیق کے مطابق اگست کے مہینے میں 611 واقعات میں 2307 افراد ہلاک ہوئے۔

طالبان اور افغان حکومت دونوں نے ہلاکتوں ان اعدادوشمار کی سچائی پر سوال اٹھایا ہے جن کی نشاندہی بی بی سی نے کی ہے۔

مرنے والوں میں سے بیشتر جنگجو تھے جن میں اندازوں سے کہیں زیادہ طالبان شامل تھے جبکہ ہلاک شدگان میں سے 20 فیصد عام شہری تھے۔

پرتشدد واقعات میں 1948 افراد زخمی بھی ہوئے۔

یہ تعداد افغانستان کے زمینی حقائق کی محض ایک جھلک ہے تاہم اس سے ایک ایسے وقت میں تاریک شبیہ ابھر کر آتی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے نتیجے میں اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم مقصد پورا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تقریباً ایک ہفتے قبل صدر ٹرمپ نے طالبان سے تقریباً ایک برس سے جاری مذاکرات کا عمل ختم کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم اب بھی ان کے دوبارہ آغاز کا امکان رد نہیں کیا جا رہا۔

تاہم جنگ بندی ان مذاکرات کا بھی موضوع نہیں تھی اور ہر ہفتے سینکڑوں افغان باشندے ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ خدشات بھی ہیں کہ رواں ماہ کے آخر میں صدارتی انتخاب کے موقع پر پرتشدد واقعات میں شدت آ سکتی ہے۔

یہ جاننے کے لیے کہ بی بی سی نے افغانستان سے اگست کی معلومات کیسے حاصل کیں، آپ کو یہ صفحہ آخر تک دیکھنا ہوگا۔

ہلاکت خیز 31 دن

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ اگست میں ہر روز پرتشدد حملوں میں اَوسطاً 74 افراد ہلاک ہوئے۔

افغانستان میں تشدد

اگست کے پہلے ہفتے میں پرتشدد واقعات کے بعد مسلمانوں کے تہوار عید الاضحی کے تین دن طالبان اور افغان حکومت دونوں نے غیر اعلانیہ جنگ بندی قائم رکھی۔

اس کے باوجود بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ 10 اگست کی شب سے 13 اگست تک چھٹیوں کے دوران بھی پرتشدد واقعات میں 90 افراد ہلاک ہوئے۔

سب سے زیادہ جانی نقصان 27 اگست کو ہوا۔ اس دن فضائی حملوں میں 162 افراد ہلاک جبکہ 47 زخمی ہوئے۔ ان میں زیادہ تر طالبان جنگجو تھے۔

لیکن شہریوں کے لیے سب سے خطرناک دن 18 اگست تھا جب ایک ہی دن میں 112 ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں زیادہ لوگ ایک ہی واقعے میں ہلاک ہوئے جب ایک خودکش بمبار نے کابل کی ایک شادی کی تقریب پر حملہ کیا۔ اس حملے میں 92 افراد ہلاک جبکہ 142 زخمی ہوئے۔

یہ ایک درزی میر واعظ علمی کی شادی تھی۔ اس نے اپنی پوری زندگی کی کمائی اس ایک دن کے لیے بچا کر رکھی تھی، جو اس کی زندگی کا سب سے خوشگوار دن ہونا چاہیے تھا۔

لیکن اس دن میر واعظ کے متعدد قریبی دوست مارے گئے۔ ان کی دلہن نے اپنا ایک بھائی اور کئی رشتے دار کھو دیے۔ میر واعظ کا کہنا ہے کہ وہ اب اپنے شادی کے کپڑے اور فوٹو البم جلا دینا چاہتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’ایک ہی لمحے میں میری تمام خوشی اور ارمان ختم ہو گئے۔‘

شدت پسند تنظیم’دولت اسلامیہ‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

Image of a wedding in Kabul

کابل میں ایک شادی کی تقریب

سب سے زیادہ نقصان کس کا ہو رہا ہے؟

سنہ 2001 سے طالبان اب سے زیادہ طاقتور کبھی نہیں رہے لیکن اگست میں ہونے والی اموات میں سے آدھے ان کے جنگجوؤں کی تھیں جو کہ بہت حیران کن ہے۔

اس کے پیچھے متعدد عوامل ہیں، بالخصوص کہ طالبان امن مذاکرات کے دوران بھی حملے کر رہے تھے جس کے نتیجے میں امریکی افواج نے فضائی حملوں اور رات کے آپریشنز میں اضافہ کر دیا۔ ان میں طالبان کے ساتھ عام شہری بھی ہلاک ہوتے رہے۔

گذشتہ چند برسوں میں طالبان نے اپنے کتنے جنگجو کھوئے ہیں، اس بارے میں معلومات موجود نہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے پاس تفریباً 30 ہزار جنگجو ہیں۔

ایک بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ وہ ان ’بےبنیاد الزامات‘ کو مسترد کرتے ہیں کہ گذشتہ مہینے میں ان کے ایک ہزار جنگجو مارے گئے۔ طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں جو اس پیمانے پر ہلاکتوں کا ثبوت دے سکے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ بی بی سی کی رپورٹ کی بنیاد ’کابل حکومت کی وزارتِ داخلہ و دفاع کا روزانہ کی بنیاد پر کیا جانے والا پروپیگینڈا ہے۔‘

دوسری طرف افغان سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتیں خفیہ رکھی جاتی ہیں جس سے ہمارے اعداد و شمار ہلاکتوں کی اصل تعداد سے کافی کم ہو سکتے ہیں۔ جنوری میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ سنہ 2014 سے اب تک سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

افغان وزارتِ دفاع کے مطابق اس تحقیق کا ’سنجیدگی سے دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور زمینی حقائق کی بنیاد پر مزید تحقیق کی جانی چاہیے۔‘

افغانستان میں تشدد


عام شہری زیادہ بری طرح متاثر ہوتے ہیں

بی بی سی نے تصدیق کی ہے کہ اگست میں 473 شہری مارے گئے جبکہ 786 زخمی حالت میں ہیں۔

ان اعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں شہری اموات کی گنتی کا عمل حقائق سے بہت کم ہوتا ہے۔

امریکی اور افغان افواج شہریوں کی اموات کے بارے میں رپورٹ نہیں کرتے یا تردید کر دیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے افغانستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی سربراہ فیونا فریزر نے کہا کہ ’لڑائی کا شہریوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثر پڑا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں لڑائی میں دنیا کے کسی بھی علاقے کے مقابلے میں زیادہ شہری ہلاک یا زخمی ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حالانکہ اس بارے میں اعداد و شمار تکلیف دہ حد تک زیادہ ہیں لیکن پھر بھی تصدیق کے لیے جو سخت معیار رکھا گیا ہے اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اصل عدد یقیناً اس سے بہت زیادہ ہو گا۔‘

افغانستان میں تشدد

جنگ میں زندگی گزارنا کیسا ہے؟

بڑے پرتشدد واقعات، جیسے شمالی شہر قندوز میں جھڑپ یا کابل میں شادی کی تقریب پر بم حملہ ہی عالمی میڈیا میں شہ سرخی بن پاتے ہیں۔

لیکن افغانستان کی خطرناک جنگ مستقل جاری ہے جس میں تشدد کے چھوٹے واقعات معمول کے مطابق پیش آتے ہیں۔ یہ اکثر افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپیں ہوتی ہیں۔

اگست کے دوران بی بی سی افغانستان کے 34 صوبوں میں سے صرف تین میں ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کر پایا۔

ہر دس میں سے ایک ہلاکت صوبہ غزنی میں ہوئی۔ جنگ سے متاثر یہ علاقہ طالبان کا مرکز ہے اور اکثر یہاں افغان فوج مختلف آپریشن کرتی رہتی ہے۔

غزنی کے 66 واقعات میں سے ایک تہائی فضائی حملے تھے جو ایسے مقامات پر کیے گئے جن کے بارے میں طالبان کے ٹھکانے ہونے کا شک تھا۔

افغانستان میں تشدد

افغانستان کے شہری کہتے ہیں کہ وہ ایک غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

ارزگان صوبے کے محب اللہ نے بی بی سی سے قندھار کے مرکزی ہسپتال میں بات کی۔ ڈاکٹروں نے اس سے قبل ان کے ایک بھائی کے کندھے سے ایک گولی نکالی تھی۔

انھوں نے غصے سے کہا ’جب بھی ہمارے علاقے میں آپریشن ہوتا ہے تو عام لوگ کہیں آ جا نہیں پاتے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو امریکی یا افغان فوج کے اہلکار انھیں گولی مار دیتے ہیں۔‘

’ان کا جہاں دل کرتا ہے وہ بم پھینک دیتے ہیں۔ ہمارے اردگرد سب گھر تباہ ہو چکے ہیں۔‘

دنیا کی سب سے خطرناک جنگ؟

پچھلی چار دہائیوں سے افغانستان میں جنگ جاری ہے اور کئی سال سے حالات جوں کے توں ہیں۔

گذشتہ سال آرمڈ کانفلکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ نے جنگی اموات کے اعتبار سے افغانستان کو دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا۔

ان کے 2019 کے ڈیٹا کے مطابق افغانستان اپنی پوزیشن پر قائم ہے۔ ادارے کے مطابق اگست میں افغانستان میں ہونے والی ہلاکتیں شام یا یمن سے تین گنا زیادہ ہیں۔

جون 2019 میں گلوبل پیس انڈیکس رپورٹ کے مطابق افغانستان دنیا کا سب سے کم پرامن ملک ہے۔

بی بی سی نے معلومات کیسے اکٹھی کیں؟

بی بی سی نے یکم سے 31 اگست کے درمیان افغانستان میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی 1200 سے زیادہ رپورٹس اکٹھی کیں۔

بی بی سی افغان کے نامہ نگاروں نے ہر واقعے کی چھان بین کی۔ ان میں چھوٹے سے بڑے تمام واقعات تھے۔

رپورٹس کی تصدیق کرنے کے لیے بی بی سی نے ایک ٹیم تشکیل دی جس نے خبروں کا پیچھا کیا اور متعدد ذرائع سے حقائق معلوم کیے۔

ان ذرائع میں حکومتی افسران، صحت کے شعبے سے وابستہ اہلکار، قبائلی رہنما، مقامی شہری، عینی شاہد، ہسپتال کا ریکارڈ اور طالبان کے ترجمان و ذرائع شامل ہیں۔

ہر واقعے کی تصدیق کے لیے دو قابل اعتماد ذرائع کی شرط رکھی گئی۔

کسی بھی واقعے میں صرف سب سے کم تصدیق شدہ ہلاکتوں کو گنتی کا حصہ بنایا گیا۔ جہاں مختلف ذرائع متضاد معلومات فراہم کر رہے تھے وہاں محض تصدیق شدہ سب سے چھوٹے عدد کا استعمال کیا گیا اور باقی اعداد و شمار نہیں لیے گئے۔

نتیجے میں سینکڑوں رپورٹس شامل نہ ہو سکیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہلاکتوں اور واقعات کا اصل عدد کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32546 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp