سکیورٹی کا مسئلہ ہے یا کچھ اور، دفاتر میں سمارٹ فونز پر پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟


فون جمع کرانے کا کاؤنٹر

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس زیرِ حراست تشدد اور ملزمان کی ہلاکت کے پے در پے واقعات سامنے آنے کے بعد گذشتہ چند روز سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔ ہر واقعہ میں بات موبائل فون کے ذریعے بننے والی ویڈیوز کے باہر آنے سے شروع ہوتی تھی۔

پنجاب پولیس پر تنقید نے اس وقت زیادہ شدت اختیار کی جب رحیم یار خان پولیس کی حراست میں صلاح الدین نامی چوری کے ملزم کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی۔ ساتھ ہی صلاح الدین سے پولیس کی تفتیش کی چند ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر دکھائی دیں۔

صارفین نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ پھر انھی دنوں سوشل میڈیا پر یہ حکم نامے بھی سامنے آئے کہ صوبہ پنجاب کے تھانوں میں سمارٹ فون لے کر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

ان خبروں کے فوراً بعد چند تصاویر سامنے آئیں جہاں مختلف شہروں کے تھانوں میں موبائل فون جمع کرنے کے کاؤنٹر قائم کیے گئے تھے۔ سوشل میڈیا پر ان تصاویر کو لے کر بحث شروع ہوئی جس کا متن یہ تھا کہ اس طرح ‘پولیس زیرِ حراست تشدد کو چھپانا چاہتی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

پنجاب: تھانوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی

طبقاتی فرق اور پنجاب پولیس کی کارکردگی

حال ہی میں پاکستان کی وفاقی وزارتِ قانون و انصاف کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیہ بھی سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘سکیورٹی کے پیشِ نظر گریڈ 16 اور اس سے نیچے کے سرکاری اہلکار دورانِ ڈیوٹی موبائل فون استعمال نہیں کریں گے۔’

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہہ کہ یہ اہلکار کام کے اوقات میں کسی ملاقاتی کو دفتر میں نہیں بلا سکیں گے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک مرتبہ پھر بحث ہو رہی ہے کہ ایسے احکامات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ اقدام درست ہیں اور اگر ہیں تو اہلکاروں کے حوالے سے تفریق کیوں؟

پنجاب پولیس

‘پابندی صرف ناکہ جات پر ہے’

پنجاب پولیس نے موبائل فون کے استعمال پر پابندی کے حوالے سے وضاحت کی ہے۔ پنجاب پولیس کے فوکل پرسن اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آپریشنز پنجاب انعام غنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘یہ پابندیاں صرف تھانہ مہتمم کے درجے سے نیچے کے ان پولیس اہلکاروں کے لیے ہے جو ناکہ جات پر ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں۔’

‘اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ پولیس اہلکار جو کسی ناکے پر معمور ہوتے ہیں وہ موبائل فون استعمال کر رہے ہوتے ہیں جبکہ وہاں انھیں ہر وقت چوکس رہنا ہوتا ہے۔ ہمارے احکامات صرف ان اہلکاروں کے لیے تھے کہ وہ دورانِ ڈیوٹی فون استعمال نہیں کریں گے۔’

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ ‘پنجاب کے کسی بھی تھانے ک اندر کام کرنے والے اہلکاروں یا وہاں آنے والے عام افراد پر موبائل فون اندر لانے یا اس کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بننے والا تاثر غلط تھا کہ اس پابندی کا تعلق پولیس تشدد کے واقعات کے ساتھ ہو سکتا تھا۔’

ان کی توجہ ان تصاویر کی جانب مبذول کروائی گئی جن میں پولیس تھانوں کے اندر کاؤنٹر بنائے گئے تھے اور سائلوں کے فون جمع کر لیے جاتے تھے، اس پر انعام غنی کا کہنا تھا کہ ‘یہ محض کسی ایک افسر کا انفرادی عمل تھا۔’

‘کسی تھانہ مہتمم یا ضلعی افسر کے دماغ میں یہ آیا کہ ہم موبائل فون کی اجازت ہی نہیں دیتے مگر وہ تصویر سامنے آنے کے ساتھ ہی سنٹرل پولیس آفس لاہور سے یہ احکامات جاری ہو گئے تھے کہ تھانہ ایک عوامی جگہ ہے جہاں آپ کسی صورت لوگوں کو فون رکھنے سے منع نہیں کر سکتے۔’

سرکولر

‘موبائل فون پریشانی کا سبب بن چکے ہیں’

وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم سے حال ہی میں ان کی وزارت کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مقصد کے حوالے سے جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا۔

تاہم اس قسم کے اعلامیے کے جاری کیے جانے کے حوالے سے عام تاثر یہ بھی ہے کہ اس کا مقصد بظاہر ‘ضروری یا ممنوعہ دستاویز کو باہر جانے سے روکنا ہے۔’

بعض تجزیہ کار حکومت کے اس اقدام کی تائید کرتے ہیں۔ پاکستان میں پارلیمانی امور اور قانون سازی کے عمل پر نظر رکھنے والی تنظیم پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ‘یہ بات درست ہے کہ موبائل فون دفاتر کے اندر پریشانی کا سبب بن چکے ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘سمارٹ فون پر فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم موجود ہیں اور دفاتر میں لوگ ہمہ وقت ان ہی میں مشغول رہتے ہیں اور دفتری کام نہیں ہو پاتا۔ یہ سرکاری اور نجی دونوں قسم کے دفاتر میں دیکھنے میں آیا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ چند سرکاری دفاتر نے اپنے طور اس قسم کے انتظامات پہلے ہی سے کر رکھے تھے جہاں موبائل فون کا استعمال ممنوع تھا۔

پولیس سٹیشن لاہور

‘پورن فلمیں تک دیکھتے ہیں’

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ کام کے اوقات میں سمارٹ فون تک رسائی نہ ہونا کسی قسم کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ ‘ایسا نہیں ہے کہ وہ دنیا سے کٹ جائیں گے۔ سمارٹ فون وغیرہ تو نیا رجحان ہے، اس سے پہلے بھی تو سرکاری دفاتر میں یہی ہوتا تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ سمارٹ فون کے عام ہونے سے نقصان یہ ہوا ہے کہ دفاتر میں بیٹھ کر ملازمین نہ صرف سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں بلکہ ویڈیوز تک دیکھتے ہیں۔

‘آپ کو یاد ہو گا کہ انڈیا کی ایک ریاستی اسمبلی کا اسکینڈل تھا جس کے اندر ممبران بیٹھ کر پورنو گرافی دیکھ رہے تھے۔ تو اب لوگ پورن فلمیں اور دوسری فلمیں دیکھتے ہیں۔’

‘وہ اس میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ اگر ان سے کام کہا جائے تو وہ برا مانتے ہیں کہ جیسے ان کے ویڈیو دیکھنے میں خلل ڈالا گیا ہے۔’

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ سمارٹ فون کا استعمال پریشانی کا سبب ہے اور اس رجحان کی روک تھام کے لیے حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ ‘یا تو صرف سمارٹ فون سے روکا جائے اور کوئی ایسا فون ہو جس پر صرف بات ہو سکے۔’

تاہم احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس پابندی کا اطلاق بلا تفریق ہونا چاہیے۔

صرف گریڈ 16 اور نیچے ہی کیوں؟

پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اگر موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگانا مقصود ہو تو اس کا اطلاق صرف گریڈ 16 یا اس سے نیچے کے افسران پر نہیں ہونا چاہیے۔

‘اگر کرنا ہے تو پھر تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ یہ سب پر یکساں لاگو ہونا چاہیے۔ گریڈ 16 سے بڑے افسران کی رسائی عام ٹیلیفون تک زیادہ ہوتی ہے اس لیے ان کو رابطے میں زیادہ آسانی ہونی چاہیں۔’

پنجاب پولیس میں اس پابندی کا اطلاق صرف تھانہ مہتمم سے نچلے درجے کے اہلکاروں پر ہونے کے حوالے سے اے آئی جی پنجاب انعام غنی کا کہنا تھا کہ تھانے کے اندر ہر اہلکار کو موبائل فون استعمال کرنے کی آزادی ہے۔

تاہم ناکہ جات پر تھانہ مہتتم وغیرہ کو فون استعمال کرنے کی اجازت اس لیے ہے کہ تھانے کا انچارج ہونے کے حوالے سے انھیں ہمہ وقت اپنے عملے کے ساتھ رابطے میں رہنا ہوتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp