جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس: درخواست کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا


فائز عیسیٰ

SUPREME COURT OF PAKISTAN
جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس اس بنیاد پر بنایا گیا کہ اُنھوں نے اپنی بیرون ملک جائیدادوں کا ذکر انکم ٹیکس کے گوشواروں میں نہیں کیا

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے سینیئر جج جسٹس فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والے سات رکنی بینچ میں شامل دو ججوں نے درخواست سننے سے معذوری ظاہر کی ہے جس کی وجہ سے یہ بینچ تحلیل کر دیا گیا ہے۔

منگل کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور بار ایسوسی ایشنز کی درخواستوں کی سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس عیسیٰ کی جانب سے منیر اے ملک عدالت میں پیش ہوئے اور بینچ پر اعتراض کیا۔

ان کا موقف تھا کہ ان کے موکل نے انھیں ہدایت کی ہے کہ عدلیہ کا تشخص خراب نہیں ہونا چاہیے تاہم اس بینچ میں کچھ ایسے جج موجود ہیں جنھیں یہ مقدمہ سننے سے خود ہی انکار کر دینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

فائز عیسیٰ ریفرینس: لارجر بینچ میں شامل ججوں پر تحفظات

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون اور ان کے فیصلوں پر تنازعے کیا؟

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی رک گئی

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس: زیر التوا مقدمات پر سپریم جوڈیشل کونسل کی وضاحت

اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اس عدالت کا کوئی جج متعصب نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کون سا جج ایسا ہے جو متعصب ہو سکتا ہے۔‘

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وہ کسی کو متعصب نہیں کہہ رہے تاہم جن ججوں کے مفادات اس مقدمے کے فیصلے سے وابستہ ہیں وہ اس بینچ کا حصہ نہیں ہونے چاہییں۔

انھوں نے کہا کہ ‘عدالت کا کام صرف انصاف کی فراہمی نہیں بلکہ وہ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے اور اگر کسی جج کو براہ راست کوئی فائدہ ہو رہا ہو تو اس کا ایسا مقدمہ سننا ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہو گا۔’

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اس ریفرنس کے خلاف درخواست سننے سے معذوری ظاہر کرنے والے ججوں میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے درخواست نہ سننے کی وجوہات میں بتایا کہ وہ صرف درخواست گزاروں کے ان پر اعتراض کی وجہ سے الگ نہیں ہوئے بلکہ قانون کے مطابق اگر ذاتی مفاد پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں رکاوٹ بننے لگے تو انھیں خود اس بینچ سے الگ ہونا چاہیے۔

دوسری طرف جسٹس اعجاز الاحسن نے جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ درخواست گزاروں کی طرف سے ان پر اعتراض اٹھایا گیا ہے جبکہ ایک درخواست گزار خود عدالت عظمیٰ کے جج ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اعتراض کی توجیہ نہیں بنتی۔

سات رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس معاملے کو دوبارہ چیف جسٹس کے پاس بھجوا دیا ہے اور اب نیا بینچ ان درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

یاد رہے کہ جسٹس فائز عیسی اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنسز سے متعلق متعدد درخواستوں کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

اس کے بعد وکلا تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا تھا کہ ایسے ججوں کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے جو سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن بھی ہیں یا جنھیں جسٹس فائز عیسی کے خلاف کارروائی سے فائدہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان بار کونسل کی درخواست میں فل کورٹ بنانے کی استدعا کی گئی تھی۔

اسلام آباد

سات رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس معاملے کو دوبارہ چیف جسٹس کے پاس بھجوا دیا ہے

صدارتی ریفرنس روکنے کا اعلان

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نئے عدالتی سال کے موقع پر اپنے خطاب میں ان ججز کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری کارروائی روکنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک اس صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک اعلی عدالتوں کے ان دو ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی نہیں ہو گی۔

اس صدارتی ریفرنس کے خلاف چھ سے زائد درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ہیں اور درخواست گزاروں میں پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے علاوہ سنئیر وکیل عابد حسن منٹو بھی شامل ہیں۔

عابد حسن منٹو نے اپنی درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی ہے کہ پہلے ان زیر التوا ریفرنس پر فیصلہ دیا جائے جو کہ عرصہ دارز سے سپریم جوڈیشل کونسل میں پڑے ہوئے ہیں اور پھر اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس پر کارروائی عمل میں لائی جائے۔

پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جو کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین بھی ہیں، کے مطابق اب صرف نو ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہیں جبکہ مختلف ججز کے خلاف ایک سو کے قریب درخواستوں کو نمٹا دیا گیا ہے تاہم اُنھوں نے ان ججز کے نام نہیں بتائے جن کے خلاف درخواستیں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھیں۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اس ضمن میں چیف جسٹس سے ملاقات کی تھی جس میں سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت درخواستوں کی تفصیلات مانگی گئی تھیں تاہم اس کونسل کے سیکرٹری کی طرف سے ابھی تک معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp