ناران سے بابوسرٹاپ، جھیلیں اور جھرنے


ہمارا آج ناران میں آخری دن تھا اور وادی کاغان کے بلند ترین درے اور آخری مقام بابو سر ٹاپ جانے کا پروگرام تھا۔ ہم صبح آٹھ بجے ناران سے نکل گئے تھے۔ اگرچہ بابو سر جانے کے لئے آپ اپنی گاڑی بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اکثر لوگ اپنی ہی گاڑیوں پرجاتے ہیں لیکن میں نے یہ سفر جیپ پر کیا۔ سڑک کافی بہتر ہے۔ کہیں کہیں گلیشیرز سڑک روکے ہوئے ہیں۔ سڑک والے حصے کوصاف کرکے گلیشیر ہٹادیا گیا ہے۔ یوں ایسے مقامات عارضی طور پر برفانی سرنگ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ان برفانی سرنگوں سے گزرنا دل کو بھلا لگتا ہے۔

ناران سے آگے جیسے جیسے وادی کھلی اور چوڑی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے سبزہ اور جنگل کم ہوتے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناران تک وادی کاغان مون سون کی زد میں آتی ہے جوں جوں ہم بابو سر کی طرف بڑھتے ہیں مون سون کا اثر کم پڑتا جاتا ہے۔

بٹہ کنڈی سے آگے کوئی بارہ کلومیٹر تک چڑھائی ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف کچھ چھوٹے گاؤں نظر آتے ہیں۔ بٹہ کنڈی اور آس پاس کا علاقہ مٹر اور آلو کے کھیتوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ آلو اور مٹر کی چھوٹی سی منڈی بن گئی ہے۔ بٹہ کنڈی سے کوئی نو کلومیٹر آگے ایک پل آتا ہے۔ یہ پل جوڑ نالے کو دریائے کنہار سے ملاتا ہے۔ پل کے ساتھ ایک مسجد اور بازار ہے اور ڈھابے ہوٹل۔ ڈرائیور نے یہاں جیپ میں تیل ڈلوانا تھا، میرے سر میں ہلکا ہلکا درد ہو رہا تھا اس لئے چائے پینے نیچے اتر آئے۔

اس جگہ کا نام بڑوائی ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ صاف ستھرا، آلودگی سے پاک۔ بڑوائی سطح سمندر سے کوئی نو ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ انگریز کی فوج اس مقام کو خاصی اہمیت دیتی رہی ہے۔ ناران روڈ کو چھوڑ کر اگر آپ بذریعہ جیپ جوڑ نالے کے ساتھ ساتھ اور اوپر کی طرف سفر کریں تو آپ رتّی گلی جا سکتے ہیں۔ رتّی گلی ایک خوبصورت وادی کا نام ہے۔ بلندی کی طرف یہ وادی ایک درّے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ درہ تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کی دوسری طرف دریائے نیلم اور آزاد کشمیر کی وادی ہے۔ رتّی گلی کی سب سے خوبصورت چیز رتّی کی جھیل ہے جو بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک پر کشش جھیل ہے۔ یہ جھیل اس وادی کو منفرد مقام بناتی ہے۔

بڑوائی سے گیارہ کلومیٹر آگے جلکھڈ کا گاؤں آباد ہے۔ یہاں دو تین ڈھابے اور مسجد موجود ہے۔ دور دور کچھ کچے گھر نظر آتے ہیں مگر اطراف میں آلو اور مٹر کے کھیت لہلہاتے ہیں۔ یہاں سے ایک جیپ ٹریک بذریعہ نوری ٹاپ وادی کاغان کو آزاد کشمیر سے جوڑتا ہے۔ جلکھڈ سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر بیسل کا گاؤں ہے۔ یہاں وادی بہت چوڑی ہو جاتی ہے مگر سبزہ ندارد، پہاڑ ہیں مگر نسبتاً خشک۔ مجھے واش روم جانا تھا اور ایک صاف ستھرا ہوٹل بھی نظر آرہا تھا ”مون ہوٹل۔“

یہ ایک جدید طرز کا اچھا ہوٹل ہے جہاں کھانے پینے کا اچھا انتظام ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صاف ستھرے واش روم وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ یہاں تیز اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ چھوٹو اور عاشی کھانے پینے ہوٹل کے برآمدے میں چلے گئے اور میں باہر ہی ایک ٹریکنگ گروپ سے باتیں کرنے لگ گیا۔ نوجوانوں کا یہ گروپ ”دودی سر پت“ جھیل کی ٹریکنگ کے لئے جارہا تھا۔ بیسل میں ٹریکنگ کا سامان بھی مل جاتا ہے۔ یہاں سے دریائے کنہار عبور کرکے جھیل کا پیدل ٹریک ہے۔ بیسل سے یہ ٹریک کرنے کے لئے گھوڑے بھی مل جاتے ہیں۔ یہ سفر کوئی سولہ کلومیٹر بنتا ہے اور آٹھ سے نو گھنٹے لگتے ہیں۔ دودی پت سر کاغان کی سب سے خوبصورت جھیل ہے مگر ہم جیسے بڈھے یہ مسافت طے نہیں کر سکتے۔

بیسل سے صرف دو کلو میٹر کے فاصلے پر بابوسر روڈ کے کنارے وادی کاغان کی سب سے بڑی جھیل لولوسر واقع ہے۔ دریا ئے کنہار یہیں سے دریا کی شکل اختیار کرتا ہے اور دریا کا سب سے بڑا ماخذ بھی یہی جھیل ہے۔ یہ جھیل سڑک کنارے کوئی ڈھائی کلو میٹر لمبی ہے۔ اور کئی مقامات پر آپ سڑک سے کوئی سوفٹ نیچے ٹریک کرتے ہوئے جھیل کنارے تک جا سکتے ہیں۔ جھیل کا پانی ٹھنڈا اور زمرد رنگ کا ہے۔ اس جھیل کی دیومالائی کہانیاں بھی آپ کو پریوں کے دیس لے جاتی ہیں۔

ایک کہانی اکبر بادشاہ کی اندھی بیٹی سے منسلک ہے، جس نے اس جھیل کے پانی سے آنکھیں دھوئی تھیں اور اس کی بینائی لوٹ آئی تھی۔ یہ جھیل گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ بابو سر جانے والے سیاح اس جھیل پر رکے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ کچھ لوگ تو سڑک کنارے ہی فوٹو شوٹ کرکے اپنا شوق پورا کر لیتے ہیں۔ ہم کافی دیر جھیل کے ٹھنڈے برفانی پانی سے اٹھکھیلیاں کرتے رہے۔

لولو سر جھیل سے آگے ایک گلیشیر نے سڑک کو روکا ہوا تھا۔ سڑک وہاں خاصی تنگ تھی اور ٹریفک کی لمبی لائین لگی ہوئی تھی۔ جھیل سے کوئی چھ سات کلو میٹر آگے وادی آہستہ آہستہ ایک میدان کا روپ دھار لیتی ہے۔ یہ خوبصورت سرسبز چراہ گاہ ”گٹی داس“ کہلاتی ہے۔ یہاں اطراف میں کئی چھوٹی بڑی جھیلیں، چشمے، آبشاریں اور گلیشیرز ہیں جو وادی کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر گٹی داس وادی کاغان کا آخری گاؤں اور سب سے کھلا اور چوڑا مقام ہے۔

اس میدان سے گزر کر بابو سرٹاپ کی چڑھا ئی شروع ہوتی ہے۔ سات کلومیٹر سیدھی چڑھائی کے بعد بالآخر ہم بابو سر ٹاپ پہنچ گئے۔ جیپ سے اترتے ہی ٹھنڈی یخ برفانی ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔ فوراً جیپ سے جیکٹ اور مفلر، ٹوپی نکالنی پڑی۔ ایک منٹ میں ہی قلفی جم گئی تھی۔ ہر طرف برف ہی برف نظر آئی۔ آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے تیر رہے تھے، یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان پر بھی برف کے گالے اڑتے پھرتے ہوں۔ ہم نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا، وادی کاغان اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ آنکھوں کو خیرہ کئیے دے رہی تھی۔

سبزے سے ڈھکے میداں، سفید برف کے گلیشیر، آبشاریں اور جھرنے، وادی کو چار چاند لگاتے نظر آئے۔ برف پوش چوٹیاں سرسبز پہاڑوں کے بیچ بڑی شان و شوکت سے سر اٹھائے کھڑی دکھائی دیں۔ ہم سڑک پر آگے کی طرف بڑھے تو یہ سڑک بل کھاتی گہرائی میں ڈوبتی محسوس ہوئی۔ چوٹی سے نیچے کی جانب پہاڑ بھی خشک اور سبزے سے عاری نظر آئے یوں لگا دیو مالائی حسن اپنے انجام کو پہنچ گیا ہو۔

بابو سرٹاپ دراصل ایک درہ ہے جو وادی کاغان کو بلتستان سے ملاتا ہے۔ کوئی پچاس کلومیٹر بل کھاتی اور گہرائی کی جانب سفر کرتی یہ سڑک چلاس کے مقام پر شاہراہ ریشم سے مل جاتی ہے۔ یہ وہ قدیم راستہ ہے جو چین سے آنے والے تاجر اختیار کیا کرتے تھے۔ 1892 میں انگریز نے اسے گھوڑوں پر سفر کے قابل بنایا جو بعد میں جیپ ٹریک میں بدل گیا۔ موجودہ سڑک اتنی اچھی ہے کہ آپ سوزوکی مہران پر بھی بابو سرٹاپ تک آسکتے ہیں۔ بابو سرٹاپ سطح سمندر سے 13600 فٹ کی بلندی پر وادی کاغان کا سب سے اونچا مقام ہے۔

ہم تقریباً ایک گھنٹہ برفانی پہاڑ پر اچھل کود کرتے اورفوٹو گرافی کرتے رہے۔ برف کے گولے بنا کر ایک دوسرے پر پھینکتے رہے۔ یہاں ایک برآمدے والا ہوٹل، چندایک ڈھابے اورمکئی کی گرم چھلی بیچنے والے آگ کی بھٹّیاں لگا کر بیٹھے تھے۔ واش روم مگر مہنگا اور گندا تھا مگر مجبوری میں استعمال کرنا پڑا۔ اچانک ہوا کی رفتار انتہائی تیز ہو گئی۔ طوفان کی آمد آمد تھی۔ ہم نے بھاگ کر اسی برآمدے والے ہوٹل میں پناہ لی۔ ان کاکچن کھلا تھا۔

آگ تاپتے گرم گرم چائے پی کر جیپ میں آبیٹھے۔ ڈرائیور بھی گرم کمبل نما چادر اوڑھے ہمارا منتظر تھا۔ واپسی کا سفر شروع ہوا جو بہت اداس تھا۔ راستے میں جلکھڈ کے مقام پر ایک تندوری ہوٹل پر رک کر کھانا کھایا۔ یہاں دریائے کنہار بہت ملائم ہے اور پھیلاؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر مقامات پر زیادہ گہرا نہیں۔ چھوٹو اور عاشی جوتے اتار کر دریا میں کھیلنے لگیں۔ ہم نے دریا کنارے کرسی میز ڈال کر کھانا کھایا اور سکون سے چائے کی چسکیاں لینے لگے۔ شام تک ہم ناران واپس پہنچ چکے تھے۔

چسکیاں لینے لگے۔ شام تک ہم ناران واپس پہنچ چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).