نظام کے اربوں روپے پر ہندو پاک میں تنازع


میر عثمان علی خان صدیقی

نظام شاہی ریاست حیدرآباد کے ساتویں حکمراں میر عثمان علی خان صدیقی نے 1911 سے 1948 تک حکومت کی

حیدرآباد کے ساتویں نظام میر عثمان علی خان صدیقی کے دربار کے وزیر خزانہ نواب معین نواز جنگ نے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے بینک اکاؤنٹ میں دس لاکھ پاؤنڈ کی رقم جمع کرائی تھی جس میں آج 35 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

اس وقت برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے لندن بینک اکاؤنٹ میں منتقل کردہ دس لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 89 کروڑ روپے) اب 350 لاکھ پاؤنڈ (تقریبا 1۔3 ارب روپے) ہو چکے ہیں اور انھی کے نام پر ان کے نیٹ ویسٹ بینک اکاؤنٹ میں جمع ہیں۔

ان پیسوں کے لیے نظام اور پاکستانی ہائی کمشنر کے جانشینوں کے مابین کشیدگی رہی ہے۔ یہ کیس ابھی بھی لندن میں رائل کورٹ آف جسٹس میں زیر سماعت ہے۔

اس کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس مارکس سمتھ نے دونوں فریقوں کے دلائل کی سماعت مکمل کر لی ہے اور رواں سال اکتوبر میں اس معاملے پر فیصلہ آنے والا ہے۔

ان کا فیصلہ یہ طے کرے گا کہ ساڑھے تین کروڑ پاؤنڈ کی اس رقم کا حقدار کون ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

سیکس سکینڈل جس نے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا

ہیروں والے ٹفن کا خریدار نہیں ملا تو کھانا رکھ دیا

بی بی سی نے ساتویں نظام اور پاکستان کے مابین جاری قانونی لڑائی اور رقم کی منتقلی کی کہانی جاننے کی کوشش کی۔

ریاست حیدرآباد کے ہندوستان سے الحاق کی کہانی

15 اگست سنہ 1947 کو ہندوستان آزاد ہوا لیکن جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سمیت متعدد ریاستوں نے اس دن آزادی کا ذائقہ نہیں چکھا۔

حیدرآباد 17 ستمبر 1948 تک نظام شاہی کے تحت آزاد ریاست کے طور پر برقرار رہا۔ اس کے بعد اس شاہی ریاست کو ‘آپریشن پولو’ نام یے ایک فوجی آپریشن کے ذریعے ہندوستان میں ضم کر لیا گیا۔

دس لاکھ پاؤنڈ کی منتقلی کی یہ کہانی حیدرآباد کے ہندوستان میں ضم ہونے کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔

نظام حیدر آباد

سنہ 1911 میں ساتویں نظام کی تاج پوشی کی رسم

اس وقت حیدرآباد آصف جاہ خاندان کی ساتویں پشت نواب میر عثمان علی خان صدیقی کی ریاست تھی۔ اس وقت وہ دنیا کے سب سے امیر شخص سمجھے جاتے تھے۔

ساتویں نظام کے پوتے شہزادہ مکرم جاہ کی نمائندگی کرنے والے قانونی ادارے ویدرز ورلڈ وائڈ لا فرم کے پول ہیوٹ کا کہنا ہے کہ ‘آپریشن پولو کے دوران، حیدرآباد ریاست کے نظام کے وزیر خزانہ نے ان کی رقم کو محفوظ رکھنے کے ارادے سے تقریباً دس لاکھ پاؤنڈ اس وقت پاکستانی ہائی کمشنر کے لندن کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دیے۔’

سنہ 1948 میں منتقل کی جانے والی یہی رقم بعد میں ساتویں نظام اور پاکستان کے جانشینوں کے مابین قانونی جنگ کی وجہ بنی۔

رقم واپس حاصل کرنے کی جنگ

پال ہیوٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ‘جیسے ہی حیدرآباد کے ساتویں نظام کو رقم کی منتقلی کے بارے میں معلوم ہوا انھوں نے پاکستان سے کہا کہ وہ جلد ہی انھیں ان کا پیسہ واپس کردے۔ لیکن رحمت اللہ نے رقم واپس کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب یہ پاکستان کی پراپرٹی ہے۔’

اس کے بعد سنہ 1954 میں ساتویں نظام اور پاکستان کے مابین ایک قانونی جنگ شروع ہوگئی۔ نظام نے اپنے پیسے واپس حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور قانونی عمل شروع کردیا۔

ہائی کورٹ میں کیس پاکستان کے حق میں چلا گیا اور اس کے بعد نظام کو اپیل عدالتوں میں جانا پڑا جہاں جیت نظام کے حق میں ہوئی۔

لیکن اس کے بعد پاکستان نے آگے بڑھ کر برطانیہ کی اس وقت کی اعلیٰ ترین عدالت ہاؤس آف لارڈز کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ نظام پاکستان پر مقدمہ نہیں چلا سکتا کیونکہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے۔

نظام حیدر آباد

ہاؤس آف لارڈز نے اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں دیا اور اس دلیل کو قبول کیا کہ نظام پاکستان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہاؤس آف لارڈز نے اس متنازع رقم یعنی دس لاکھ پاؤنڈ کو منجمد کرا دیا۔

اس وقت سے پاکستان ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی رقم نیٹ ویسٹ بینک کے پاس ہے۔ بینک کے مطابق یہ رقم اب عدالت کے فیصلے کے بعد صرف صحیح وارث کو دی جاسکتی ہے۔

لیکن گذشتہ 60 سالوں میں سود کی رقم میں اضافہ سے سنہ 1948 میں جو رقم دس لاکھ پاؤنڈ تھی وہ اب ساڑھے تین کروڑ پاؤنڈ ہوچکی ہے۔

گذشتہ چند سالوں میں بات چیت کے ذریعے اس تنازعے کا حل تلاش کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

حکومت ہند بھی اس معاملے میں ایک فریق ہے

حیدرآباد کے ساتویں نظام کا سنہ 1967 میں انتقال ہو گیا۔ لیکن رقم واپس حاصل کرنے کی یہ قانونی جنگ اس کے بعد بھی جاری رہی اور ان کے جانشینوں نے اسے آگے بڑھایا۔

اس قانونی لڑائی میں سنہ 2013 میں پال ہیوٹ اس وقت شامل ہو گئے جب پاکستانی ہائی کمشنر نے پاکستان کے لیے رقم نکالنے کے لیے بینک کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر دی۔

اس کے بعد بینک اس بات کا پابند ہو گیا کہ وہ اس معاملے میں اس رقم کا دعویٰ کرنے والے تمام متعلقہ فریقوں سے بات کرے جس میں ہندوستان سمیت نظام سلطنت کے دونوں شہزادے بھی شامل تھے۔

پال ہیوٹ کہتے ہیں کہ دونوں شہزادوں نے حال ہی میں ہندوستانی حکومت سے اس مسئلے پر بات چیت کی ہے جس نے ایک بار اس رقم پر اپنا دعویٰ بھی پیش کیا تھا۔

اب تک نظام کے جانشینوں اور ہندوستانی حکومت کے مابین گفتگو یا معاہدے سے متعلق کوئی دستاویزات سامنے نہیں آئیں۔

بی بی سی نے نظام کے جانشینوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

نظام حیدر آباد

ساتویں نظام میر عثمان علی کے پوتے اور جانشینی کی فہرست میں 36ویں نمبر پر آنے والے نجف علی خان بہادر

پاکستان کے دلائل

نظام کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ آپریشن پولو کے دوران یہ رقم پاکستانی ہائی کمشنر کے اکاؤنٹ میں محفوظ طریقے سے رکھنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔

جبکہ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ حیدرآباد کے سنہ 1948 میں انڈیا میں ضم ہونے کے دوران پاکستان نے سابق نظام کی بہت مدد کی تھی۔ یہ رقم سابقہ نظام نے اسی امداد کے بدلے پاکستانی عوام کو بطور تحفہ دی تھی اور اسی وجہ سے اس پر پاکستان کا حق ہے۔

پال ہیوٹ نے کہا: ‘سنہ 2016 میں پاکستان کا مؤقف تھا کہ 1947 سے 48 کے درمیان پاکستان سے اسلحہ حیدرآباد لایا گیا تھا جس کی قیمت دس لاکھ پاؤنڈ تھی۔

‘پاکستان نے اب تک اس معاملے میں دو دلائل پیش کیے ہیں۔ پہلے تو انھوں نے کہا کہ یہ نظام کی جانب سے پاکستان کے لیے تحفہ تھا اور بعد میں کہا کہ یہ رقم اسلحہ کی خریداری کے بدلے منتقل کی گئی تھی۔ نظام کی طرف سے یہ دلیل دی گئی کہ پاکستان نے دونوں دلائل کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ اور یہ دونوں باتیں بہت متضاد ہیں۔’

پاکستان کی جانب سے اس کیس کی نمائندگی کرنے والے کوئینز کونسل خاور قریشی کا کہنا ہے کہ وہ ابھی اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

بی بی سی کے پاس پاکستان سے جمع کرائے گئے دلائل کی ایک کاپی ہے۔ اس دستاویز کے مطابق: ‘حیدرآباد کے ساتویں نظام کی پاکستان نے مدد کی تھی اور اس کے بدلے میں رحمت اللہ کے بینک اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی گئی تھی تاکہ اس رقم کو ہندوستان کے ہاتھوں سے دور رکھا جاسکے۔

‘پاکستان نے ساتویں نظام کے لیے پاکستان سے اسلحہ فراہم کیا تھا تاکہ حیدرآباد ہندوستانی حملے سے خود کو بچاسکیں۔’

اس دستاویز کے مطابق 20 ستمبر 1948 سے یہ رقم رحیم اللہ کے لندن میں مقیم بینک اکاؤنٹ میں محفوظ ہے۔

میں نے پال ہیوٹ سے سوال کیا کہ آیا اس رقم کی منتقلی سے قبل دونوں فریقوں کے مابین کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا تھا تو ہیوٹ کا کہنا تھا کہ ‘ساتویں نظام نے ایک حلف نامہ دیا ہے کہ انھیں اس منتقلی کا کوئی علم نہیں تھا۔’

‘اس ثبوت کو اب تک چیلنج نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ان کے وزیر خزانہ کو یہ لگا کہ وہ نظام کے مستقبل کے لیے کچھ رقم حاصل کررہے ہیں اور اس معاہدے کی بنا پر رحمت اللہ نے اپنے اکاؤنٹ میں رقم رکھنے کے لیے قبول کر لیا۔’

پال ہیوٹ کہتے ہیں کہ ‘جب ساتویں نظام کو یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ اپنی زندگی میں یہ رقم واپس حاصل نہیں کر پائیں گے تو انھوں نے ایک ٹرسٹ قائم کیا۔ انھوں نے اس رقم کو اپنے ٹرسٹ میں شامل کیا اور دو ٹرسٹی مقرر کیے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ان کے بعد ان کے جانشین ان کے دو پوتے آٹھویں نظام اور ان کے چھوٹے بھائی ہوں گے۔ اس لیے اب اس خاندانی سلسلے کے یہی دو لوگ ہیں جو اس پیسے کے حقدار ہوں گے۔’

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ اور تاریخی معاملہ ہے جس سے وہ براہ راست منسلک ہیں۔

بی بی سی تیلگو سروس کی نمائندہ دیپتی باتھینی نے دکن ہیریٹیج سوسائٹی کے سربراہ محمد صفی اللہ سے اس معاملے کے بارے میں بات کی۔

محمد صفی اللہ کا کہنا ہے کہ سن 1948 میں 13 ستمبر سے 17 ستمبر تک ہندوستانی حکومت نے آپریشن پولو کیا تھا جو حیدرآباد کی ریاست کے خلاف مکمل طور پر ایک فوجی آپریشن تھا۔ اس مہم میں ہندوستانی فوج کے قریب 40 ہزار فوجی شامل تھے۔ 17 ستمبر کو حیدرآباد نے یکطرفہ فائر بندی کا اعلان کیا اور اس کے بعد ہندوستانی یونین میں شامل ہونے پر راضی ہوگیا۔

صفی اللہ کا خیال ہے کہ 350 لاکھ پاؤنڈ کی اس پوری رقم کو تین فریقوں حکومت ہند، نظام کے جانشین اور پاکستان میں برابر برابر تقسیم کر دینا چاہیے۔

‘شاید اس مسئلے کا یہ حل سب کے لیے قابل قبول ہو!’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp