پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر انڈیا کا بیان مسترد کرتے ہیں: پاکستانی دفتر خارجہ


پاکستان دفتر خارجہ

پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے انڈین وزیر خارجہ کے اشتعال انگیز اور غیر ذمہ درانہ بیانات کو مسترد کرتا ہے۔

اس سے قبل انڈیا کے وزیر خارجہ داکٹر ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ دفعہ 370 کا خاتمہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر انڈیا کا حصہ ہے اور وہ انڈیا کے اقتدار اعلیٰ کے تحت آ جائے گا۔

پیر کو پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انڈین وزیر خارجہ کا بیان دراصل وہاں بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی مسلسل پامالی پر اس کی ناکامی کا مظہر ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے مزید کہا ہے کہ انڈیا پاکستان پر الزام تراشی کر کے بین الاقوامی برادری کی توجہ اپنے جرائم سے نہیں ہٹا سکتا۔

’انڈیا جموں و کشمیر میں ڈھٹائی سے ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔‘

دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی زمینی حدود کو لیے جانے کے اشتعال انگیز بیان کو سنجیدگی سے لے۔

پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے نام پیغام میں کہا ہے کہ اس قسم کے غیر ذمہ درانہ بیانات سے کشیدگی مزید بڑھے گی اور خطے کا امن اور سکیورٹی شدید خطرے میں پڑ جائے گا۔

پاکستان نے یہ بھی کہا کہ وہ امن کا خواہاں ہیں لیکن کسی بھی اشتعال انگیزی کا موثر جواب دینے کے لیے تیار بھی ہے۔

پاکستان کے ساتھ معاملہ ’دہشت گردوں کا ہے‘

منگل کو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے سو روز پورے ہونے پر وزارت خارجہ کی کارکردگی کے بارے میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایس جے شنکر نے پاکستان کے زیر انتظام کشیمر کے بارے میں انڈیا کی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے بارے میں ہماری پوزیشن بہت واضح رہی ہے ، ہے اور رہے گی ۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر انڈیا کا حصہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ایک روز انڈیا کے اقتدار اعلی کے تحت آ جائیگا۔’

مزید پڑھیے

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

’انڈین حکومت کشمیر میں جلد از جلد عام حالات بحال کرے’

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والی شق 370 کو ختم کیے جانے اور پاکستان سے مذاکرات کے امکان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کشمیر انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے اور اس کا پاکستان سے بات چیت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا ‘دفعہ 370 باہمی معاملہ نہیں ہے۔ یہ انڈیا کا ایک اندرونی معاملہ ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ان کے ساتھ معاملہ 370 کا نہیں ہے پاکستان کے دہشت گردوں کا ہے۔ ہمارے اس موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘

کشمیر

مظاہرین پر آنسو گیس اور چھروں کا استعمال معمول کی بات ہے

ایس جے شنکر نے پاکستان کے حوالے سے مزید کہا ‘ہم دنیا کو یہی باور کراتے ہیں۔ جب میں غیر ممالک کے رہنماؤں سے بات کرتا ہوں تو میں ان سے یہی کہتا ہوں کہ مجھے ایسی کوئی مثال دیں جس میں کوئی ملک اپنے پڑوسی کے خلاف کھلے عام دہشت گردی کو اپنی خارجہ پالیسی کے حصے کے طور پر استعمال کرتا ہو۔ اس لیے جس معاملے پر پاکستان سے سب سے پہلے بات چیت ہونی ہے وہ ہے دہشت گردی کا سوال کیونکہ ہمارے موجودہ تلخ تعلقات کا بنیادی سبب یہی ہے۔’

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس مہینے کے اواخر میں امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر امریکہ میں قیام کے دوران کیا وزیراعظم نریندرر مودی کی پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے بات چیت ہو سکتی ہے تو انھوں نے کہا پاکستان کو پہلے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا ‘پاکستان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف باتیں کرتے ہیں وہ دہشتگردی ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میٹھی باتیں کرنے سے اصل مسئلہ حل ہو جائیگا ۔ لیکن اصل مسئلہ دہشت گردی کی وہ مشین ہے جو انھوں نے تخلیق کی ہے۔’

انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیمر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم اس مہینے کے آخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں۔ انڈیا کی کوشش ہے کہ کشمیر کا معاملہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز نہ بننے پائے۔ جبکہ پاکستان دنیا کی توجہ کشمیر میں چالیس دنوں سے جاری لاک ڈاؤن اور پابندیوں کیطرف مبذول کرانا چاہتا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڑ ٹرمپ کشمیر کے موجودہ حالات کے تناظر میں حالیہ ہفتوں میں دو بار یہ کہہ چکے ہیں وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ یہ دونوں اس کے لیے تیار ہوں۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ وہ پاکستان سے اپنے باہمی معاملات پر بات چیت کر سکتے ہیں۔ لیکن کشیمرکے سلسلے میں انھوں ثالثی کی پیشکش کو یہ کرمسترد کر دیا تھا کہ یہ انڈیا کا ا اندرونی معاملہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp