قصور: مٹی کے تودوں سے تین گمشدہ بچوں کی لاشیں برآمد


صوبہ پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں تقریباً گذشتہ تین ماہ میں گم ہونے والے چار میں سے تین بچوں کی لاشیں ایک ہی مقام سے ملی ہیں۔

قصور پولیس کے ترجمان ساجد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ بچوں کی لاشیں منگل کی شام چونیاں بائی پاس انڈسڑیل سٹیٹ کے علاقے میں مٹی کے تودوں سے ملی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ لاشیں اس وقت ملیں جب ایک ٹریکٹر ٹرالی والا وہاں پر مٹی لینے گیا تھا۔ ڈرائیور نے لاشیں دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی تھی۔

ساجد اقبال نے بتایا کہ 16 ستمبر کو لاپتا ہونے والے ایک آٹھ سالہ بچے فیضان کی میت کچھ ٹھیک حالت میں تھی جس کی وجہ سے شناخت ممکن ہوسکی ہے جبکہ باقی دونوں بچوں کی لاشوں کی شناخت ممکن نہیں ہے، پولیس نے ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کرلیے ہیں جن کی رپورٹ کا انتظار ہے۔

ساجد اقبال نے بتایا کہ علی حسین اور سلیمان کی گمشدگی کی اطلاع پولیس کو 15 اور 18 اگست کو ملی تھی جبکہ عمران کی گمشدگی کی اطلاع 12 جون کو ملی تھی۔

موقع پر موجود عینی شاہد وقاص احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ جب چونیاں کے ویران مقام پر بچوں کی لاشیں ملنے کی اطلاعات شہر میں پھیلیں تو پورا شہر ہی اس مقام پر امڈ آیا تھا جس کے بعد پورے علاقے کو پولیس کی بھاری نفری نے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’فیضان کی لاش ایک گھڑے میں الٹی پڑی ہوئی تھی۔ جب کہ اس کے چند قدم کے فاصلے پر کچھ اور باقیات تھیں، جس میں سر،بازو اور ٹانگوں کے کچھ حصے تھے۔ اسی طرح دو دو، تین تین فٹ کے فاصلے پر نیلے رنگ کے کپڑے تھے وہ کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے، پانچ مقامات پر بکھرے پڑے تھے۔ منظر ایسا تھا جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا صرف قیامت ہی تھی۔‘

ایک اور عینی شاہد مسکین کا کہنا تھا کہ جب فیضان کی لاش کو نکالا گیا تو اس کی والدہ غش کھا کر گر پڑی تھی جبکہ باقی بچوں کے والدین جسموں کی باقیات کو دیکھ رہے تھے اور ان والدین کے ہمراہ پورے شہر کے لوگ اشک بار تھے۔

اس واقعے کے بعد شہر کے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

فیضان کا نماز جنازہ رات گئے پولیس کی بھاری نفری اور سخت حفاظتی اقدامات میں ادا کیا گیا جبکہ باقی دو بچوں کی باقیات ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے فارنزک لیبارٹری کے پاس موجود ہیں۔

چونیاں بازار میں واقعے کے خلاف منگل سترہ ستمبر کو بھی ہڑتال کی گئی تھی جبکہ اٹھارہ ستمبر کو پہیہ جام ہڑتال کی اپیل کی گئی ہے۔

نیلے کپڑے کس بچے نے پہنے ہوئے تھے؟

موقع پر موجود عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ جب نیلے رنگ کے کپڑے دستیاب ہوئے تو اس موقع پر علی حسین اور محمد عمران کے اہل خانہ یک دم چیخ پڑے کہ اس رنگ کے کپڑے ہمارے بچوں نے پہنے ہوئے تھے۔

اس موقع پر علی حسین کے والد محمد افضل اور محمد عمران کے والد محمد رمضان اور ان بچوں کی مائیں آگے بڑھیں کپڑوں کو دیکھا تو محمد عمران کے والد محمد رمضان نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے یہ کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے جبکہ علی حسین کے والد محمد افضل اور اس کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کے بچے نے بالکل ایسے ہی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔

عل حسین کے والد محمد افضل نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خون کے نمونے حاصل کر لیے گے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ جلد ہی اطلاع دیں گے کہ علی حسین کے جسم کی کون کون سے باقیات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ ہوچکا ہے ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکا چونیاں چھوڑ سارے قصور ضلع، پاک پتن جہاں جہاں پہنچنا ممکن تھا تلاش کرچکے ہیں مگر کوئی پتا نہیں چلا۔

محمد عمران کے والد محمد رمضان کا کہنا تھا کہ تقریباً تین ماہ سے اوپر ہوچکے ہیں کہ محمد عمران غائب ہے۔ محمد عمران جب غائب ہوا تو سکول سے چھٹیاں تھیں یہ کوئی دس، گیارہ بجے کا وقت تھا،سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اس کی والدہ نے مجھے بتایا کہ روز کی طرح مجھ سے نظر بچا کر باہر جانا چاہتا تھا مگر اس روز پتا نہیں کیوں میں نے اس کو منع کیا کہ نہ جاؤ تو اس نے کہا کہ اچھا نہیں جاتا جس کے بعد جب میں کسی کام سے اندر گئی تو وہ باہر نکل گیا۔

عمران کی والدہ نے بتایا ہے کہ جب دوپہر کھانے کا وقت ہوا تو وہ نہ آیا تو بچوں کو بھیجا کہ اس کو لے آئیں مگر وہ نہ ملا تو خود باہر نکل کر دیکھا، پڑوس کے گھروں میں پتہ کیا مگر وہ نہیں ملا جس کے بعد مجھے اطلاع دی گئی۔ میں نے ہر طرف ڈھونڈا اور رات کو مایوس ہو کر پولیس کو اطلاع دی گئی تھی۔

تین متاثرہ خاندانوں کا تعلق غوثیہ آباد سے

تین بچوں جن میں فیضان، علی حسین اور سلیمان کا تعلق چونیاں کے محلہ غوثیہ آباد سے ہے۔ فیضان کے والد امام محمد رمضان غوثیہ آباد ہی میں امام مسجد ہیں جبکہ علی حسین اور سلیمان کے والد مزدوری کرتے ہیں۔ عمران کا تعلق رانا ٹاون کے علاقے سے ہے۔

غوثیہ آباد جو تقریباً پانچ ہزار سے زائد گھروں پر مشتمل ہے میں اس وقت قیامت برپا ہے۔کئی راتوں سے وہاں کے لوگ خوف کے مارے سو نہیں سکے اور وہاں کے والدین نے اپنے بچوں کو باہر نکلنے اور کھیلنے سے بھی منع کردیا ہے۔

سلیمان جو کہ گذشتہ ایک ماہ سے زائد غائب ہے کے والد محمد اکرم سے جب رابطہ کیا گیا تو انھوں نے فون اپنے بڑے بھائی محمد اشرف کو دے دیا۔ محمد اشرف کا کہنا تھا کہ محمد اکرم اس صورتحال میں نہیں کہ بات کرسکیں۔

محمد اشرف کا کہنا تھا کہ سلیمان ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے لاپتا ہے۔ شام کے وقت روز کے معمول کی طرح گھر سے کھیلنے کے لیے نکلا مگر رات گے تک واپس نہیں آیا۔ جس کے بعد پولیس میں رپورٹ درج کروائی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہم لوگوں نے بہت زور لگایا کہ ہمیں بچوں کی باقیات دیکھنے دو مگر انھوں نے نہیں دیکھنے دیں اور اب ہم سے کہتے ہیں کہ اگر غائبانہ نماز جنازہ کروانا ہے تو کروا لیں مگر ہم نے انکار کردیا ہے کہ نہیں ہمیں اب ہمارے بچے کی باقیات دو تو پھر ہی نماز جنازہ کروائیں گے۔

محمد اشرف کا کہنا تھا کہ وہ غوثیہ آباد کے باقی دو متاثرہ خاندانوں کی بھی نمائندگی کررہے ہیں۔ ا ن کا کہنا تھا کہ افسوس یہ ہے کہ پولیس نے بچوں کی تلاش میں ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا تھا۔ کئی مرتبہ پولیس کے پاس گے تھے مگر پولیس والے کہتے تھے کہ آجائے گا ہم بھی تلاش کررہے ہیں آپ لوگ بھی تلاش کرو مگر اس نے نہیں آنا تھا نہیں آیا۔

اگر پولیس تعاون کرتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

پولیس کیا کہتی ہے

آر پی او شیخوپورہ انعام علی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بچوں کے قتل پر بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس پوری کوشش کررہی ہے کہ ملزمان کو گرفتار کرلے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت چار، پانچ لوگ پولیس کی حراست میں ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ ہی ملزم ہوں۔

ان کا کہنا تھا ایک جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں زینب قتل کیس کی تفتیش کرنے والے افسران کو بھی طلب کیا گیا ہے۔

پولیس شعبہ تفتیش قصور کے ذرائع کے مطابق اس وقت پولیس تمام پہلوؤں سے تفتیش کررہی ہے۔ لاہور سے فارنزک لیبارٹری کا عملہ بھی پہنچ چکا ہے۔ جس مقام سے بچوں کی لاشیں ملی ہیں وہاں سے تمام نشانات وغیرہ حاصل کر لیے گے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا کوئی اور واقعہ ہے یہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی بتایا جاسکے گا۔

پولیس ذرائع کے مطابق تفتیش کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں کئی مشتبہ افراد سے پوچھ کچھ ہورہی ہے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے قصور کی رہائشی چھ سالہ زینب چار جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور نو جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی لاش ملی جس پر ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ 13 جنوری کو ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے ملزم عمران کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے 17 فروری کو زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ 41 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ مجرم کی اپیلیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے مسترد کردیں تو اس کو 17 اکتوبر 2018 کو پھانسی دے دی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp