گندمی رنگت والی دیسی انسٹاگرام سٹارز، جنھیں اپنی رنگت پر کوئی احساسِ کمتری نہیں!


انسٹاگرام پر دنیا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی ان نوجوان لڑکیوں پر مشتمل ایک بہن چارہ فروغ پا رہا ہے جو فخریہ طور پر خود کو ’براؤن گرل‘ یا گندمی رنگت والی لڑکیاں کہلواتی ہیں۔

مگر یہ کون ہیں اور آخر کیا چاہتی ہیں؟

انسٹاگرام اکاؤنٹ براؤن گرل گینگ کی بانی سنجنا نگیش کہتی ہیں کہ ’ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم ’بہت زیادہ گندمی ہیں‘ یا یہ کہ ہم ’اتنی بھی گندمی نہیں‘، مگر انسٹاگرام ہمیں اب اپنی ثقافت واپس حاصل کرنے اور اس سے کھیلنے کا موقع دے رہا ہے اور ہم بالکل یہی کر رہے ہیں۔‘

’گندمی لڑکیوں کی جانب‘ سے ’گندمی لڑکیوں کے لیے‘ پیش کرنے والے اس اکاؤنٹ کے 50 ہزار فالوورز ہونے سے یہ واضح ہے کہ ان آسٹریلوی خاتون نے ایک وسیع ہوتی ہوئی مارکیٹ میں قدم رکھا ہے۔

’میں انسٹاگرام پر سکرول کر رہی تھی اور میں دیکھتی رہی کہ میری جیسی خواتین زبردست کام کر رہی تھیں اور ہمارے رنگا رنگ جنوبی ایشیائی ورثے کا جدید پاپ کلچر سے بھی ملاپ ہو رہا تھا جس سے کچھ نہایت حیران کن تخلیق جنم لے رہی تھی۔ اور میں یہی دکھانا چاہتی تھی۔‘

امریکہ، انڈیا، کینیڈا اور برطانیہ سے تک سے فالو کیے جانے والے ان کے اس ڈیٹابیس میں اداکارہ مِنڈی کیلنگ، سماجی کارکن جمیلہ جمیل اور کئی بولی ووڈ ستاروں سے متعلق چنے گئے میمز ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں ابھرتے ہوئے فنکاروں، کاروباری شخصیات اور انٹرنیٹ پر مواد پیدا کرنے والوں کی تصاویر بھی ہیں۔ اور ان سب میں یکساں بات ’براؤن گرل‘ ہونا ہے۔

براؤن گرل، مِنڈی کیلنگ

اکثر جنوبی ایشیائی خواتین کے مطابق وہ کامیڈین و اداکارہ مِنڈی کیلنگ سے متاثر ہیں

پیپر سموسہ نامی اکاؤنٹ شروع کرنے والی آرٹسٹ سمی پٹیل اور دی کیوٹ پستہ کی بانی نیہا گاؤنکر سنجنا کے پیج پر ان ’براؤن گرلز‘ کے طور پر درج ہیں جن کے زندگی کے بارے میں مشاہدات نظر رکھے جانے کے قابل ہیں۔

سمی پیشے کے اعتبار سے ایڈورٹائزنگ انڈسٹری میں کاپی رائٹر ہیں۔ وہ برطانیہ میں پیدا ہوئیں اور بچپن میں امریکہ منتقل ہوگئیں۔ پیپر سموسمہ پر وہ انڈین اور مغربی پاپ کلچر کے امتزاج پر مشتمل جو میمز پوسٹ کرتی ہیں، اس کے لیے نت نئے تصورات اپنے گجراتی، کینیائی اور انڈین ورثے سے حاصل کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘میں کچھ ’کُول‘ بنانا چاہتی تھی مگر کچھ ایسا جو مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ میرے جیسے دیگر لوگوں کو بھی اپنے قریب محسوس ہو۔ یہ کچھ ایسا ہونا چاہیے تھا جس میں مشرقی اور مغربی کلچر کا امتزاج ہوتا جس تک نوجوان دیسی نسل کی رسائی ہے۔ ہم جدید کلچر میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ہر ماڈرن چیز کو اپنی روایات کے ساتھ مکس کر رہے ہیں۔’

سمی کا استعمال کردہ لفظ ’دیسی‘ سنسکرت لفظ ’دیش‘ سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنیٰ ملک یا سرزمین کے ہیں۔ اس کا استعمال جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کے لیے کیا جاتا ہے جو اپنے ملک سے باہر رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وہ انڈا جس نے کائیلی جینر کو پیچھے چھوڑ دیا

’رنگت سانولی ہے:‘ پرینکا کو ہالی وڈ سے انکار

ایک رات میں انسٹاگرام پر ایک لاکھ فالورز کیسے؟

اور BrownGirl# کے ہیش ٹیگ کے انسٹاگرام پر لاکھوں بار استعمال اور دیسی کے ہیش ٹیگ کے 58 لاکھ مرتبہ استعمال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ گروپ یہاں سے کہیں جانے والا نہیں ہے۔

سنجنا کہتی ہیں کہ ’اس سے پہلے آپ کو فلموں اور ٹی وی پر منحصر رہنا پڑتا تھا اور ہمارے جیسی خواتین کو صرف ایک رخی کردار اور گھسے پٹے تصورات کے ایک ملغوبے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔ اب ہم اپنے بیانیہ خود پیش کر رہے ہیں۔‘

امریکی ریاست اوہائیو میں باؤلنگ گرین سٹیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر رادھیکا گجالا اس بات پر تحقیق کر رہی ہیں کہ جنوبی ایشائی لوگ کس طرح ڈیجیٹل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ’براؤن گرل‘ تحریک سے حیرت زدہ نہیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بولی ووڈ سٹارز نے طویل عرصے تک ایک مخصوص اور کنٹرولڈ تشخص کو فروغ دینے کے لیے اپنے برینڈز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے میڈیا کا استعمال کیا ہے۔

’ڈیجیٹل دنیا سے واقفیت رکھنے والی یہ خواتین خود کو ایسے ہی مگر حقیقت کے زیادہ قریب تر انداز میں پیش کر رہی ہیں۔ بلکہ اب تو آپ دیکھیں گے کہ بولی ووڈ سٹارز بھی ان خواتین کی کامیابی کو دیکھتے اور ان سے نت نئے تصورات حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ انھیں بغیر پوز کیے شاٹس لیتے ہوئے دیکھیں گے جو کہ عمومی فارمولہ تصاویر سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ خواتین وہ ہیں جنھیں میں ‘ڈیجیٹل ڈایاسپورا’ کہتی ہوں۔‘

زیرِ تربیت آرکیٹیکٹ اور دی کیوٹ پستہ نامی اکاؤنٹ کے پیچھے موجود ذہین خاتون نیہا گاؤنکر اس بات سے متفق ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’میں انڈیا اور برطانیہ میں بڑی ہوئی اور کوئی 10 سال قبل شکاگو منتقل ہوگئی۔ اس سب کا مقصد کلچر، ترکِ وطن اور سفر کے ایک بھرپور اور خوشگوار امتزاج کو ڈھونڈنا ہے۔ اس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ ہم کہاں فِٹ ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ انڈین کلچر سے زیادہ سے زیادہ قریب آ سکیں، چنانچہ انھوں نے انسٹاگرام کا رخ کیا جہاں انھوں نے دیگر لوگوں کو بھی ان سے متعلقہ مواد شیئر کرتے ہوئے دیکھا۔

’میں کئی حیران کن اور قابل لوگوں سے ملی جنھوں نے یہ دکھایا کہ انڈین، پاکستانی یا کچھ اور ہونا کیسا ہوتا ہے۔ میں اس تاریخ سے واقف ہو رہی تھی اور اس کا حصہ بننا چاہتی تھی۔‘

ٹورنٹو سے تعلق رکھنے والی پرانوی سوداگر کہتی ہیں کہ وہ خود کو ’براؤن گرل‘ کہلوانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔

وہ ایک تامل کینیڈین ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ایک گرافک ڈیزائنر ہیں۔

وہ انسٹاگرام اکاؤنٹ ناٹ ساڑھی بھی چلاتی ہیں جہاں وہ پرنٹس پوسٹ کرتی ہیں جبکہ اپنے بنائے ہوئے کپڑوں اور بیجز کی رونمائی بھی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا کام ’ہر خاکے کے ساتھ اس تجربے کو دوسروں تک پہنچانا ہے جس سے گندمی رنگت والے لوگ گزرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں: ’جب میں بڑی ہو رہی تھی تو دیگر گندمی رنگت والوں کے ساتھ دوستیاں کرتی تھی۔ ہم حیرت انگیز حد تک مختلف پس منظر اور مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے مگر ہماری پرورش اور زندگی کے ہمارے تجربات میں کافی یکسانیت تھی۔ مجھے یہ بہت پسند تھا کہ ہم ان ثقافتی روایات پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتے تھے۔’

پروفیسر گجالا کہتی ہیں کہ لفظ ’براؤن‘ کا استعمال اہم تھا کیونکہ یہی وہ لفظ ہے جس نے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی مختلف تواریخ کے درمیان پُل باندھنے اور اپنے درمیان یکساں چیزوں پر روشنی ڈالنے میں مدد دی ہے۔

اور یہ صرف جنوبی ایشیائی خواتین کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے خاندانوں میں ترکِ وطن کی تاریخ موجود ہے پھر چاہے وہ رضامندی سے ہو یا پھر کالونائیزیشن یا غلامی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے۔ ان سب کے درمیان ’گندمی رنگت ہونا‘ یکساں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ لفظ ’براؤن‘ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے دہشتگرد حملوں کے بعد اور بھی زیادہ نمایاں ہوا۔

’یہ ایک سیاسی ہم آہنگی کے بارے میں تھا۔ یہ لفظ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قریب لایا۔ انھیں ’دیگر‘ قرار دے کر ناگوار انداز میں دیکھا جا رہا تھا اور اس لفظ نے ان لوگوں کے درمیان تاریخی فرق مٹا دیے جنھیں ہمیشہ سے تارکینِ وطن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں: ‘براؤن ہونا کوئی نسلی زمرہ نہیں ہے۔ مردم شماری کی ایسی کوئی بھی دستاویز نہیں جس میں ایسی کسی نسل کا تذکرہ ہو۔ مگر بھورے افراد کو عموماً اور بالخصوص امریکہ میں تارکِ وطن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اب ہم زیادہ سے زیادہ خواتین کو دیکھ رہے ہیں جو ’براؤن‘ کا لفظ استعمال کر کے لوگوں کو متحرک کرنے اور اپنے اپنے بیانیوں کا کنٹرول حاصل کر رہی ہیں۔‘

اب سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خواتین ایک دوسرے کو تلاش کر پا رہی ہیں۔ ان کے سماجی پس منظر مختلف ہوں اور وہ دوسرے ممالک میں رہتی ہوں مگر وہ یہ جان پا رہی ہیں کہ ان کے درمیان کافی کچھ یکساں ہے۔

پرانوی کہتی ہیں کہ: ’براؤن ایک غیر رسمی لفظ ہے۔ میں ایک براؤن شخص ہوں۔ یہ ان لوگوں کے لیے مددگار ہے جو لفظ ’دیسی‘ کا استعمال نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ زیادہ تکثیریت کا عکاس ہے۔ اس میں انڈو کیریبیئن، سری لنکن، مکس، اور دیگر کئی طرح کے لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک زبردست اصطلاح ہے۔

‘مجھے نہیں لگتا کہ سفید فام افراد اسے استعمال کریں گے پر اگر وہ کریں تو میں ذاتی طور پر اس کا برا نہیں مانوں گی۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ توہین آمیز لفظ نہیں ہے اور مجھے کسی نے بھی اس انداز میں مجھے یہ کہہ کر نہیں پکارا ہے۔ یہ ایک ’کول‘ لفظ ہے۔‘

https://www.instagram.com/p/BYtTUGvjqnp/?utm_source=ig_embed

انھوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی خواتین کے بارے میں ایک روایتی تصور یہ تھا کہ انھیں حفاظت سے رکھا جاتا ہے، وہ جبر کی شکار اور کافی روایت پسند ہوتی ہیں۔ مگر انسٹاگرام پر موجود کئی ’براؤن‘ لڑکیاں ان کے ساتھ مزاح کا استعمال کرتے ہوئے اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لیے شامل ہوگئیں تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ وہ شوخ بھی ہیں مگر اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے لڑ بھی رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان براؤن لڑکیوں کو سفید فام مسیحاؤں کی ضرورت نہیں ہے۔‘

مگر وہ لوگ جو دیسی کلچر پر روشنی ڈالنے کے لیے اب کافی عرصے سے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں، وہ اس نئی تحریک کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

ہیٹ کاپی نامی اکاؤنٹ کی ماریہ قمر کو اکثر ابھرتے ہوئے دیسی آرٹسٹس کی جانب سے اپنا آئیڈیل قرار دیا جاتا ہے۔ ایک ایسی آرٹسٹ جنھوں نے سوشل پلیٹ فارمز پر کام شروع کیا، اب ان کا کام دنیا بھر میں دکھایا جا چکا ہے، اسے مِنڈی کیلنگ فروغ دے چکی ہیں، اور فی الوقت ان کے کام کی نمائش نیویارک میں جاری ہے۔

سمی کہتی ہیں کہ ’یہ ہیٹ کاپی ہے جس نے دیسی آنٹیوں کو نمایاں کیا ہے۔‘

https://www.instagram.com/p/B2CTZ_UBdto/?utm_source=ig_embed

کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں رہنے والی ماریہ کہتی ہیں: ’میں زیادہ تر کام تنہائی میں بناتی ہوں اس لیے یہ حیران کن ہے کہ لوگ خود کو اس سے جڑا ہوا پاتے ہیں۔ میں سوچتی تھی کہ میرے سارے تجربات میرے ذاتی تھے مگر واضح طور پر یہ معاملہ نہیں ہے۔‘

وہ کہتی ہیں: ’اب ہو یہ رہا ہے کہ خواتین خود کو ایک لکیر پر رکھنے اور دبائے رکھنے کے لیے بنائی گئی روایات سے لڑ رہی ہیں۔ دیسی خواتین سامنے آ رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ’میں وہ کروں گی جو میں چاہتی ہوں۔‘

ماریہ ان خدشات کو مسترد کرتی ہیں کہ ’براؤن گرل‘ کا لیبل محدود کر سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں براؤن لڑکی ہوں۔ یہ میری پہچان ہے۔ یہی وہ نکتہ نظر ہے جس کے ذریعے ہم کام کر رہے ہیں۔‘

’براؤن لڑکیاں آپ کے مخالف نہیں بلکہ ہم سب کی حامی ہیں۔ ہمیں فخر کرنے دیا جانا چاہیے کیونکہ خاص طور پر گہری رنگت والی لڑکیوں کو میڈیا میں کم جگہ ملتی ہے۔ سیاہ فام اور گندمی رنگت والی لڑکیوں کو اکثر دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ مگر اب ہمیں دیکھا جانا شروع ہوا ہے، اور وہ بھی ہماری اپنی شرائط پر۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp