’کشمیر میں معمول کی زندگی طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے‘


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں لوگ حصار کے دور میں خوفِ محصوری سے بچنے کے لیے نت نئے طریقے اپنا رہے ہیں۔

سرینگر کے باغوں اور پارکوں میں ان دنوں لوگوں کی تعداد میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔ مچھلی پکڑنے والے خوبصورت ڈل جھیل کے کنارے کانٹے لیے بے ترتیب بیٹھے ہیں۔ بعض گاڑیوں میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے کے لیے نکل پڑتے ہیں اور کئی لوگ سنسان گلیوں میں مل کر گپ شپ کرتے ہیں۔

حصار کی علامت سمجھی جانے والی بہت سی سکیورٹی روکاوٹوں اور خاردار تاروں کو ہٹا لیا گیا ہے۔ بجلی کی بندشیں ختم ہو رہی ہے اور چھوٹے بازار چند گھنٹوں کے لیے کھلتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت والی وادی جہاں تقریباً 70 لاکھ لوگ رہتے ہیں وہ نریندر مودی کی برسراقتدار بی جے پی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے، خطے کو دو حصوں میں تقسیم کیے جانے اور قید و بند کے بعد ایک قسم کے معمول پر آ رہی ہے۔

لیکن سرکاری ملازم عاصمہ قریشی، جو وسیع و عریض پارک میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ٹہل رہی ہیں، اس بات سے متفق نہیں۔

انھوں نے مجھ سے کہا: ‘اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ ہر چیز معمول پر ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 370: کشمیری ہو، مکان خالی کر دو

کشمیر میں خطوط اور لینڈ لائن فون کی واپسی

کشمیر: انٹرنیٹ سروسز بدستور معطل، آن لائن کاروبار ٹھپ

روشن مستقبل

پیر کو انڈیا کی عدالت عظمی نے ‘قومی مفاد اور داخلی سکیورٹی کو مدِنظر رکھتے ہوئے’ حکومت کو کشمیر میں معمول کی زندگی بحال کرنے کے لیے کہا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ اا کے مطابق ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں، دوا کی دکانیں کھل رہی ہیں، غذاؤں اور دواؤں کا وافر ذخیرہ ہے، کیش مشین بھی کام کر رہی ہیں، لینڈ لائن فونز کو بحال کیا جا رہا ہے اور سکول کھلے ہوئے ہیں، وغیرہ۔

یہاں تک کہ حکومت نے مناسب قیمتوں پر کسانوں سے سیب کی فصلیں خریدنے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے۔ مقامی اخبارات روزگار اور ترقی کے روشن اور سرسبز مستقبل کے سرکاری اشتہارات سے بھرے پڑے ہیں۔

تاہم یہ معمول ایک فریب ہے۔

لینڈ لائن فون زندہ ہو رہے ہیں تاہم زیادہ تر لوگ اس پر بات نہیں کر پاتے ہیں۔ بعض سرکاری دفاتر کھلے ہیں لیکن وہاں تقریباً کوئی بھی نہیں آتا ہے۔

تشدد کے خوف سے والدین اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج رہے ہیں۔ پرائیوٹ سکول والدین سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بچوں کی تعلیم کے لیے ویڈیو اسباق اور مطالعے کے مواد یو ایس بی پر حاصل کریں۔

اس خطے کے بچے گھروں میں بند ہیں جہاں وہ یا تو ٹی وی ہر خبریں دیکھ رہے ہیں اور یا والدین کی باتیں سن سن کر ‘انڈیا کی جانب سے کی جانے والے ناانصافی’ پر گل افشائی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے باغیچوں میں ’سنگ باری’ کا کھیل کھیلتے ہیں۔

ایک سکول کے استاد نے کہا: ‘ہماری زندگی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ذہن کو محصور کر دیا گیا ہے۔’

بیزار اور سنسان سڑکوں پر دوا کی دکانوں کے علاوہ سب دکانیں بند ہیں۔ مواصلات کی معطلی اور سرکاری معلومات کے ابہام کے سبب مقامی اخبار پہلے کے مقابلے میں بس ڈھانچہ رہ گئے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سیاسی رہنماؤں، تاجروں اور سرگرم کارکنوں سمیت تقریبا تین ہزار لوگوں کو حراست میں لے لیا گيا ہے اور سکیورٹی فورسز پر مار پیٹ اور تشدد کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

تاہم انڈیا نے ان الزامات کو ‘بے بنیاد اور ناقابل توثیق’ قرار دیا ہے۔

حکام کی جانب سے وسیع پیمانے پر سکیورٹی انتظامات کیے جانے کے سبب بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات رونما نہیں ہوئےہیں۔ بہر حال لاک ڈاؤن کے بعد سے سکیورٹی فورسز کی جانب سے اقدام کیے جانے کی صورت میں ہونے والی اموات کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ مایوسی اور شکست خوردگی کی لہرِ زیریں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

نام نہ ظاہر کیے جانے کی صورت میں ایک مقامی پولیس نے مجھے بتایا کہ لوگ غصے میں ہیں، تذلیل محسوس کر رہے ہیں اور بے بس ہیں۔ ان کے پاس کوئی رہنما نہیں ہے جس کی بات پر وہ عمل کریں۔ انڈیا پر انھیں کوئی اعتماد نہیں رہ گیا ہے۔

‘میرے خیال سے یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے۔ لیکن اس بار ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ مزاحمت کہاں سے اٹھے گی۔’

اس کی مثال بھی ملتی ہے۔ نوجوان کشمیری حکومت کے خلاف سنہ 2008، 2010، اور 2016 میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے جس میں بہت پرتشدد واقعات ہوئے اور بہت سے لوگ ہلاک بھی ہوئے۔

‘جنریشن آف ریج ان کشمیر’ کے مصنف ڈیوڈ دیوداس کا کہنا ہے کہ تین سال قبل شدت پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والے احتجاج میں ‘عوام کے غصے نے نئی شدت پسندی کو ہوا دی۔’

وہ کہتے ہیں کہ 2010 کے مقابلے میں یہ بہت مختلف تھا کیونکہ اس وقت احتجاج معصوموں کے قتل کے خلاف تھا۔ دیوداس کا کہنا ہے کہ 2016 کا احتجاج ‘ریاست کے جواز کو مسترد کرنے کی نمائندگی کر رہا تھا۔’

کشمیر

حکام اب بعض مقامات سے رکاوٹیں اور خاردار تار ہٹا رہے ہیں

لیکن اس بار صرف سرینگر کے پڑوس صورہ سے احتجاج کو اٹھتے دیکھا جا رہا ہے جس کے ایک جانب جھیل ہے اور دوسری جانب ایک ملٹی سپیشلٹی ہسپتال۔

شٹ ڈاؤن کے آغاز کے کئی دنوں بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس نے انھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور فائرنگ کی۔ چند ہفتے بعد اس علاقے میں ایک جلوس پُر تشدد ہو گيا اور مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر پتھر پھینکے جس کا جواب انھوں نے آنسو گیس کے گولوں اور پیلٹ گنز سے دیا۔ اس میں کم از کم دو افراد زخمی ہوئے۔

‘جیل میں زندگی گزارنا’

صورہ مزاحمت کا مرکز بن گیا ہے جوکہ بہت عجیب بات ہے۔ نوجوانوں نے خندقیں کھود لی ہیں اور داخلے کے تینوں دروازوں کو پتھروں، تاروں، لکڑیوں، کوڑوں، اینٹوں، بیکار دھاتوں اور تاروں سے روک دیا گیا ہے۔ ایک معروف درگاہ مظاہرین کا مرجع بن گیا ہے۔ تنگ گلیوں اور گھروں کے اورپر درونز اڑتے ہیں تاکہ ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔

جب رات ہوتی ہے تو نوجوان تھوڑی آگ جلاتے ہیں اور بانس کے موٹے ڈنڈوں، مچھلی پکڑنے کی لگیوں جن پر کیلیں لگی ہوتی ہیں کے ساتھ ‘پہرہ’ دیتے ہیں کہ کہیں سکیورٹی فورسز چھاپہ نہ مار دیں۔ بند دکانوں اور گھروں پر برہان وانی کے پوسٹر لگے ہیں، بندوقوں کی تصاویر بنی ہیں اور پاکستان نواز نعرے لکھے ہوئے ہیں۔

سکولی تعلیم ادھوری چھوڑنے والے ایک 19 سالہ نوجوان نے بتایا: ‘ہم لوگ جیل میں رہ رہے ہیں۔ لیکن ہم اپنے علاقے میں سکیورٹی فورسز کو داخل نہیں ہونے دیں گے۔’

دوسری جگہ مایوسی اتنی واضح نہیں ہے۔ لیکن جنوبی کشمیر کے بے چین علاقے میں اپنے تین دنوں کے سفر کے دوران میں نے ایک شخص کو بھی علی الاعلان اس خطے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی حمایت کرتے نہیں سنا۔ زیادہ تر کشمیریوں کا کہنا ہے کہ انھیں اس سے ٹھیس پہنچی ہے اور وہ ذلت محسوس کر رہے ہیں۔

یہ باتیں انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے اس بیان سے بالکل برعکس ہے جو انھوں نے حال میں کشمیر میں ایک ہفتے گزارنے کے بعد کہی کہ وہ ‘اس بات کے قائل ہیں کے کشمیریوں کی اکثریت آرٹیکل 370 کے خاتمے کی پوری طرح سے حمایت کرتی ہے۔’

اس کے برعکس میں نے دیکھا کہ ان میں یہ خوف گھر کر گیا ہے کہ ان کی زمینیں لے لی جائيں گی اور باہر والے ان کا ‘مسلم تشحض’ ختم کر دیں گے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ برسراقتدار ہندو قوم پرست بی جے پی اس مسلم اکثریتی علاقے کا کردار اور اس کی ڈیموگرافی کو بدل دینا چاہتی ہے۔

انڈیا کا کہنا ہے کہ ان کے یہ اقدام صرف علاقے کی ترقی کے لیے ہیں۔

کشمیر

‘کرو یا مرو’

شوپیاں کے ایک 40 سالہ دکاندار شیراز احمد نے بتایا: ‘اب یہ ہمارے لیے کرو یا مرو والی حالت ہے۔’

42 سالہ تاجر عاشق حسین نے کہا کہ ‘احتجاج کی سونامی آنے والی ہے۔ ہمارے ذہن میں غصہ ہے اور ہمارے دلوں میں لاوا جل رہا ہے۔ ہمیں انڈیا کی جانب سے دھوکہ اور تکلیف ملی ہے۔

‘ہم آزادی چاہتے ہیں۔’

لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ کشمیر میں ‘آزادی’ کا مطلب بہت سی چیزیں ہیں۔

سنہ 2011 میں بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی وزٹنگ سکالر اور ‘ڈی مسٹیفائنگ کشمیر’ کی مصنفہ نونیتا چڈھا بہیرا نے کشمیر کے چھ اضلاع میں نوجوانوں کا وسیع مطالع کیا۔ انھوں نے اپنے مطالعے میں پایا کہ 54 فیصد افراد ‘آزادی’ چاہتے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر لوگ ‘اپنی حکومت، خود مختاری، خود ارادیت اور آزادی’ چاہتے ہیں۔ صرف ایک فیصد افراد نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کہی۔

اس کے بعد سے لوگوں کے رجحان میں کسی قسم کی تبدیلی کی کوئی علامت نظر نہیں آئی ہے۔

غیر یقینی مستقبل

لیکن آگے کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔

دہلی میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیری تشدد سے تھک چکے ہیں اور وہ بالآخر مودی کے ملازمت اور ترقی کے وعدوں کو تسلیم کر لیں گے۔ لیکن کشمیر میں اس خیال سے کوئی اتفاق نہیں رکھتا۔

تو کیا یہ اس سورش کے خاتمے کی ابتدا ہے جس میں سنہ 1990 کے بعد سے اب تک 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں؟ اور کیا اس سے طویل عرصے سے جاری سورش کا تازہ مرغولہ اٹھے گا جو انڈیا کو ایک خون آشام جنگ میں گھسیٹ لے گا؟

عام طور پر کمشیر میں بڑے پیمانے پر بغاوت کسی مسئلے کے چھڑنے کے کافی بعد شروع ہوتی ہے جیسے کہ 1963 کی بغاوت کو لے لیں جو کہ برسر اقتدار نیشنل کانفرنس کے رہنما شیخ عبداللہ کی معذولی اور گرفتاری کے دس سال بعد شروع ہوئی۔ انھیں استصواب رائے کے حق میں اور باضابطہ طور پر انڈیا میں ضم کرنے میں تاخیر کے لیے گرفتار اور برطرف کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 1989 کی بغاوت متنازع انتخابات کے دو سال بعد شروع ہوئی تھی۔

لندن سکول آف اکانومکس میں بین الاقوامی اور تقابلی سیاست کی پروفیسر سومنترا بوس نے مجھے بتایا کہ ‘حالات پہلے سے زیادہ نازک اور آتش گیر ہیں۔’

صرف وقت بتائے گا کہ کیا یہ سچ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp