گھوٹکی اور مٹھی میں صرف ایک ہی فرق ہے


جس رات گھوٹکی کے تاریخی مندر میں کئی شہروں سے آئے ہزاروں لوگ جاگ کر چوکی (پہرہ) دیتے ر ہے اس رات پورے شہر میں کسی نے کوئی خواب نہیں دیکھا، گھوٹکی شہر میں اک عجب سا سوگ چھایا ہوا تھا، ہر گلی شرمندہ تھی ہر چوراہا آتے جاتے لوگوں سے آنکھیں چرا رہا تھا۔ مندر میں جاگنے والوں میں پی پی پی، جی یو آئی، مسلم لیگ، قوم پرست، کمیونسٹ، ادیب، دانشور، موسیقار، رقاص، طالب علم، گویے، شاعر، سماجی کارکن اور عام آدمی بھی شامل تھے۔ سندھیت اک روحانی رمز ہے، جس کو صرف سندھی ہی محسوس کر سکتے ہیں، یہ واقعی کمال چیز ہے اس کے آگے مذاہب اور مسالک ہار مان لیتے ہیں۔

کیا یہ حیران کن عمل نہیں ہے کہ گھوٹکی میں ایک اسکول طالب علم نے جب اپنے پرنسپل پروفیسر نوتن لال پر الزام لگایا کہ اس نے نبی کریم ﷺ کے شان میں گستاخی کی ہے تو اس کے خاندان اور قبیلے کے لوگوں کا خون کھول اٹھا۔ انہوں نے ایک دو گھنٹے کے اندر پورے گھوٹکی شہر میں کربلا کی فضا برپا کردی، ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ شہر کے سب ہندو سہم گئے، اس سے پہلے کہ وہ اپنی دکانیں بند کرتے شرپسندوں نے ان کی املاک پر حملے شروع کردیئے اور سب سے بڑا حملہ شہر کے صدیوں پرانے مندر پر ہوا۔ اب ان شرپسندوں کے ساتھ درگاہ بھرچونڈی کے میاں مٹھو کے مریدین بھی شامل ہوگئے، جنہوں نے مندر میں گھس کر سب سے پہلے بھگت کنور رام کی مورتی کو توڑنا شروع کیا۔

وہاں غلے توڑ کر ساری رقم چرالی اور مورتیوں کے پہنے ہوئے سونے اور چاندی کے گہنے اتار کر ساتھ لے گئے۔ اس کہرام میں سب سے زیادہ جس مورت کو نقصان پہنچایا گیا وہ بھگت کنوررام کی تھی۔ جو لوگ نہیں جانتے انہیں خبر ہو کہ بھگت کنور رام کو سندھ میں ہمیشہ سے انتہائی عزت اور تکریم سے دیکھا جاتا ہے۔ بھگت کنور ایک مشہور مذہبی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مقبول موسیقار، رقاص اور گائک تھے، وہ رقص کے ساتھ گرونانک، کبیر، خواجہ فرید، سورداس، تلسی داس اور سندھ کے مسلمان صوفیوں کا کلام گایا کرتے تھے۔ اس وقت بھی سندھ کے سینکڑوں گلوکار ان کو استاد مانتے ہیں اور اپنے گانوں میں ان کی طرز کو کاپی کرتے ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت جن لوگوں نے سندھ میں امن، شانتی اور بھائی چارے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا ان میں بھگت کنوررام پیش پیش تھے۔

صحافی اختر بلوچ نے لکھا ہے کہ ”بھگت کنور رام تقسیم سے قبل سندھ کی ایک ایسی ہستی تھے جنہوں نے سماج سیوا میں کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا اور نہ ہی ہندو مسلم کی تفریق رکھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ایک ایسے عظیم موسیقار اور گلوکار بھی تھے جن کا کلام سننے کے لیے لوگ جوق در جوق پہنچتے تھے اور ہزاروں روپے ان پر نچھاور کرتے تھے لیکن محفل کے اختتام کے بعد وہ یہ تمام رقم ہندو اور مسلمان ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔“

انہیں 1939 ء میں ایک مسلمان مذہبی پیشوا کے پیروکاروں نے قتل کردیا تھا۔ سینیئر صحافی، ادیب، محقق اور دانشور شیخ عزیز کے مطابق ”جس وقت قاتل انہیں قتل کرنے وہاں پہنچے تو ان کے کسی چاہنے والوں نے سنتروں کا ایک ٹوکرہ انہیں تحفے میں دیا تھا۔ انہوں نے خوشدلی سے ان کا استقبال کیا اور انہیں سنترے اپنے ہاتھوں سے چھیل کر کھانے کے لیے دیے۔“

سندھ کے معروف ادیب علی احمد بروہی نے کنور رام کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ:

”کنور رام نے زندگی کا آخری راگ مانجھند میں گایا۔ مانجھند شہر میں گا کر ریل میں بیٹھ کر دادو میں اترے اور وہاں سے دوسری گاڑی میں سکھر جانے کے لیے رُک اسٹیشن پر پہنچے تو گاڑی کے چلنے کے بعد ان کو پیر صاحب بھرچونڈی کے مرید اور ظالم شخص جانو جلبانی اور اس کے ساتھی مراد سہریانی نے بندوق سے حملہ کرکے زخمی کردیا۔ گاڑی میں علاج نہ ہونے کے سبب باگڑجی اسٹیشن تک خون زیادہ بہہ جانے کے سبب کنور رام دیہانت کرگئے۔ سکھر، روہڑی اور دیگر شہروں میں ہندو ہوں یا مسلمان سب اس افسوس ناک حادثے پر غم میں مبتلا ہوکر مشتعل ہوگئے۔ یہ واقعہ یکم نومبر 1939 ء کے دن وقوع پذیر ہوا اور اُن کی آخری رسومات 2 نومبر کو ادا کی گئیں۔ اُن کی آخری آرام گاہ رہڑکی ضلع گھوٹکی میں سنت سترام داس کے چرنوں میں موجود ہے۔“

گھوٹکی میں جس مندر پر راجپوت برادری اور بھرچونڈی پیر کے مریدوں نے حملہ کیا وہ بھی سنت سترام داس کا مندر تھا، جس مورتی کو توڑا گیا وہ بھگت کنوررام کی تھی۔ جب ہندوؤں کے گھروں پر بھی حملے شروع ہوگئے تو سوشل میڈیا پر پورے سندھ کی سول سوسائٹی جاگ اٹھی، سینکڑوں لوگ اپنے اپنے شہروں سے گھوٹکی میں لگی آگ بجھانے کے لئے اس طرف نکل پڑے۔ پولیس درمیان میں آگئی، لوگوں کو روکا گیا، اور دوسرے شہروں سے آنے والے لوگوں نے مندر کی حفاظت سنبھال لی۔

یہ بھی اک عجب منظر تھا جب شدت پسند لوگ مندر پر حملہ آور تھے اور یہ بھی کمال منظر تھا جب ہزاروں مسلمان بھائی پوری رات مندر کے اندر رہ کر اپنے ہندو بھائیوں کی حفاظت کرتے ر ہے۔ سندھ میں سندھ پرستی پر پی ایچ ڈی کرنے والی اک پروفیسر صاحبہ کا کہنا تھا کہ ”یہ بات باقی صوبوں کے لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے کہ ’سندھیت‘ کیا چیز ہے۔ ہم واقعی یہ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں کہ جب سندھیت کی بات آتی ہے تو سندھ کی پی پی پی، جی یو آئی، مسلم لیگ، قومپرست، پی ٹی آئی، کمیونسٹ، دہریے، دانشور، شاعر، صوفی، شاعر، رقاص، گلوکار، فنکار اور عام آدمی بھی ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست ایسے منظر کئی بار کموں شہید، ٹھوڑہی، بھٹ شاہ، سن اور سیوہن میں یا ان کے پس منظر میں دیکھ چکی ہے۔“ ایسا تازہ منظر تاریخ نے گھوٹکی کے سچو سترام مندر میں بھی دیکھا، جہاں سب سندھی خود ہندو بھائیوں سے اجتماعی طور پر محبت اور ساتھ دینے کا یقین دلانے آئے تھے۔

غوث پور شہر کے باسی اور سچو سترام کے عاشق ڈاکٹر جگدیش کمار کا کہنا ہے کہ ”میاں مٹھو کا کردار اس وقت بھی ہندو برادری کے لئے کسی راون سے کم نہیں ہے۔ لوگ سہمے ہوئے ہیں ڈر سماج میں سرائیت کیے ہوئے ہے۔“ پی ٹی آئی رہنما اور دانشور جئہ پال چھابڑیہ کا کہنا ہے کہ ”سیاسی طور پر میں پی ٹی آئی سے اور پروفیسر نوتن لال پی پی پی کے سرگرم کارکن ہیں۔ میں نوتن لال کو ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ اور ان کی پتنی بیس سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں، وہ ایک نیک اور کمال شخصیت کے مالک شخص ہیں۔

”ایک اسکول کے طالب علم نے اپنے استاد پر مذہبی منافرت کا الزام لگا کر اس کی زندگی تباہ کردی ہے، اب اگر قانون پروفیسر نوتن لال کو بے گناہ بھی قرار دے دے تو کیا یہ ممکن کہ وہ اس شہر میں کچھ کر سکے، کیا وہ اب نوکری چھوڑ دے، کیا وہ اسکول بھی بند کردے، کیا وہ خود اور اس کے بچے گھر سے نکلنا بند کردیں، کیا وہ گھوٹکی شہر چھوڑ جائے یا سندھ ہی چھوڑ جائے۔ ہم ہندو ہیں اور ہمارے دھرم میں ’دھرتی ماتا‘ کا رتبہ سورگ سے بھی اتم مانا جاتا ہے، ہم کہاں جائیں گے؟“

”ہمیں بتایا جائے کہ نئے پاکستان میں مدینہ کی ریاست اپنی اقلیتوں کی آنے والی نسلوں کے ذہنوں پر کون سے اثرات چھوڑنا چاہتی ہے۔ ہم وزیر اعظم عمران خان، بلاول بھٹو زرداری اور نواز شریف سمیت تمام ملکی سیاسی قیادت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جب لاہور کی عدالت پنجاب کی ایک سکھ لڑکی کو انصاف دے سکتی ہے تو سندھ کی عدالت ہم سب کو کیوں نہیں۔“

اس واقعے سے کئی اور عوامل بھی سامنے آئے ہیں کہ استاد پہ الزام لگانے والا لڑکا اصل میں چند مہینے پہلے ہی فیملی کے ساتھ شفٹ ہوکر گھوٹکی میں آیا تھا اور اس الزام لگانے کے بعد شہر میں توڑ پھوڑ کی کارروائی میں بھی اکثر راجپوت اور آرائیں برادری کے لوگ شامل تھے۔

دوسرے طرف گھوٹکی میں پیدا ہونے والے حالات پر سندھ کے صحرائی شہر مٹھی کے سماجی کارکن برکت جان بجیر نے لکھا ہے کہ ”میں گھوٹکی کے تمام مسلمانوں کو مٹھی شہر آنے کی دعوت دیتا ہوں، کہ آکر دیکھیں کہ مٹھی میں ہندو اور مسلمان کیسے پیار اور محبت سے رہتے ہیں۔

یہاں پر ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی عبادگاہوں کی عزت اور حفاظت کرتے ہیں۔ محرم میں ہندو سبیلیں لگاتے ہیں، آذان کی آواز پر ہر ہندو عورت اپنا سر ڈھانپ لیتی ہے۔ عید اور ہولی ساتھ ساتھ منائی جاتی ہے۔ ہندو محلوں میں مسلمان قصاب گائے نہیں کاٹتے۔ قربانی میں صرف بکرے کاٹے جاتے ہیں۔ سب آپس میں پیار اور محبت سے رہتے ہیں پتا نہیں گھوٹکی کے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، انہیں چاہیے کہ چند دنوں کے لئے مٹھی میں آکر رہیں اور انسانیت سے پیار کرنا سیکھ لیں۔“ مٹھی کے ہی پروفیسر اشوک کمار کا کہنا ہے کہ ”گھوٹکی اور مٹھی میں صرف ایک ہی فرق ہے اور وہ ہے ’میاں مٹھو‘ بات ختم۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).