سعودی عرب حملے: ’امریکہ سعودی عرب کے حقِ دفاع کا حامی ہے‘


مائیک پومپیو سعودی عرب میں

سعودی عرب کے دورے پر پہنچنے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ نے تیل تنصیبات پر حملے کو جنگی اقدام قرار دیا تھا

امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کی خام تیل کی تنصیبات پر حالیہ حملوں کے بعد اس کے حقِ دفاع کی حمایت کرتا ہے۔

انھوں نے یہ بات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہی۔

مائیک پومپیو بدھ کو سعودی حکام سے ملاقات کے لیے ریاض پہنچے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران کے اقدامات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا اور تیل تنصیبات پر حملے نہ صرف سعودی عرب بلکہ امریکی شہریوں اور دنیا میں تیل کی رسد کے لیے بھی خطرہ تھے۔

اس سے قبل سعودی عرب کے دورے پر پہنچنے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ یہ ایک ’جنگی اقدام‘ تھا۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب حملے: ہتھیاروں کے ملبے سے ثابت ہوتا ہے کہ حملوں کے پیچھے ایران ہے‘

کیا سعودی عرب اور ایران میں براہ راست جنگ ہو سکتی ہے؟

سعودی عرب حملے: ’ایرانی ہتھیاروں کے استعمال کا اشارہ ملا ہے‘

سعودی تنصیبات پر حملے: کیا خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے؟

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ یہ بات یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ تیل کی تنصیبات پر حملوں کے پیچھے ایران کا ہی ہاتھ تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ جوابی اقدام کے لیے امریکہ کے پاس ’بہت سی آپشنز‘ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک آخری آپشن ہے اور پھر کچھ اس سے کم درجے کے آپشنز ہیں۔ ہم دیکھیں گے، ہماری پوزیشن بہت مضبوط ہے۔‘

بدھ کو ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے امریکی وزیرِ خزانہ سے ایران پر عائد پابندیوں میں مزید سختی اور اضافے کے لیے بھی کہا ہے۔

سعودی عرب

کرنل مالک سنیچر کو ہونے والے حملے سے متعلق تصاویر اور ویڈیو شیئر کر رہے ہیں

صدر ٹرمپ کے اس اقدام پر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کی ’اشتعال انگیز معاشی جنگ‘ کی مذمت کی ہے۔

ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انھوں نے کہا کہ امریکہ کا مقصد جان بوجھ کر ایرانی عوام کو نشانہ بنانا ہے۔

یاد رہے کہ سنیچر کو سعودی عرب میں بقیق اور خریص کے علاقوں میں سعودی تیل کمپنی ‘آرامکو’ کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں دنیا میں تیل صاف کرنے کا سب سے بڑا کارخانہ بھی متاثر ہوا اور جہاں کمپنی کی نصف پیداوار معطل ہو گئی وہیں تیل کی عالمی رسد میں کمی آئی ہے۔

سعودی عرب کے ’شواہد‘

امریکہ کے بعد سعودی عرب نے بھی بدھ کو ایران پر براہِ راست ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔

ایران اس قسم کی کسی کارروائی میں ملوث ہونے کی تردید کر رہا ہے اور اس نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی حملے کی صورت میں وہ جواب دے گا۔ اس سے پہلے ہی یمن میں ایران کے حامی حوثی باغی کہہ چکے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے وہ ہیں۔

سعودی وزارت دفاع کے حکام نے ایک پریس کانفرنس میں کچھ ڈرونز اور کروز میزائلوں کے ملبے کی نمائش کی اور دعویٰ کیا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملے میں ایران ملوث ہے۔

Debris from drones and missiles that Saudi Arabia says prove Iranian involvement in oil installation attacks.

سعودی وزارت دفاع کے مطابق شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حملہ شمال کی جانب سے کیا گیا اور بلاشبہ اس کی مدد ایران نے کی

سعودی حکام کا کہنا تھا کہ تنصیات پر 18 ڈرونز اور سات کروز میزائلوں سے حملہ کیا گیا اور وہ یمن کی جانب سے نہیں داغے گئے۔

وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے بتایا کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حملہ شمال کی جانب سے کیا گیا اور بلاشبہ اس کی مدد ایران نے کی۔

تاہم کرنل مالکی نے کہا کہ سعودی حکام اب بھی اس چیز کے تعین پر کام کر رہے ہیں کہ حملے کا اصل مقام کیا تھا۔

ملبے میں ایک ڈرون کا پر بھی دکھایا گیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ایرانی ڈرون کا ڈیلٹا پر ہے۔ کرنل مالکی کا کہنا تھا کہ ’ڈرون پر موجود کمپیوٹرز سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی ہے۔

کرنل مالکی نے کہا کہ بقیق میں واقع تنصیبات پر 18 ڈرونز سے حملہ کیا تھا جبکہ دونوں مقامات پر سات کروز میزائل بھی داغے گئے جن میں سے چار نے خریص آئل فیلڈ کو نشانہ بنایا جبکہ تین بقیق سے کچھ پہلے گرے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام میزائل شمال سے آئے تھے۔ انھوں نے ایک ڈرون کی ویڈیو بھی دکھائی جس نے بقیق کو نشانہ بنایا۔ اس موقع پر تباہی اور نقصانات کو تصاویر اور نقشوں کی مدد سے دکھایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ خریص میں کروز میزائل کے درست حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ایران کے پراکسی (حوثی باغی) نہیں کیونکہ ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہے۔

کرنل مالکی نے یہ بھی کہا کہ ابھی یہ تفصیل نہیں دی جا سکتی کہ حملہ کس جگہ سے کیا گیا، یہ جیسے ہی واضح ہو گا اس کے بارے میں بتایا جائے گا۔

امریکی دعویٰ

سعودی حکام کے اعلان کے برعکس امریکی حکام چند روز قبل دعویٰ کر چکے ہیں کہ امریکہ نے ایران میں اس مقام کا پتہ چلا لیا ہے جہاں سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرونز اور کروز میزائل داغے گئے تھے۔

ایک سینیئر امریکی اہلکار نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ یہ مقام جنوبی ایران میں خلیج کے شمالی سرے پر واقع ہے۔

اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ سعودی ایئر ڈیفنس نے ڈرونز اور میزائلوں کو نہیں روکا کیونکہ ان کا رخ یمن کے حملوں کو روکنے کے لیے جنوب کی جانب تھا۔

تیل کی عالمی منڈی پر اثرات

سعودی عرب میں سنیچر کو تیل کی تنصیبات پر حملوں کا اثر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر دیکھنے میں آیا تھا اور جہاں پیر کو بازار کھلتے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گذشتہ چار ماہ کی بلند ترین سطح کو جا پہنچی تھی

بلوم برگ کے مطابق ایک دن کے کاروبار میں یہ 1988 کے بعد ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔

سعودی تنصیبات کے مکمل طور پر بحال ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں اور ان حملوں کی وجہ سے تیل کی عالمی رسد میں فوری طور پر پانچ فیصد کمی آ گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp