چونیاں میں بچوں کا اغوا اور قتل: متاثرہ والدین پولیس کی کارکردگی پر نالاں


علی حسنین کی والدہ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور کے نواحی قصبے چونیاں کے لیے روانہ ہوئی تو خیال آیا کہ ایسی ہی ایک صبح تھی جب زینب قتل کیس کی کوریج کے لیے قصور کا سفر کیا تھا۔

فرق صرف اتنا تھا کہ وہی ضلع تھا لیکن اب منزل اس کی تحصیل چونیاں تھی۔

شہر میں لاپتہ بچوں کے لواحقین اور عام شہریوں کی جانب سے احتجاج کی خبریں شہر میں داخلے سے پہلے ہی مل چکی تھیں۔ داخل ہوتے ہی مرکزی شاہراہ پر جگہ جگہ ٹوٹے شیشے بکھرے ہوئے پڑے تھے۔ لاری اڈے کو پیچھے چھوڑا تو کچھ آگے لوگوں کا ہجوم دکھائی دیا۔ بچوں اور بڑوں کی کثیر تعداد تھی جو احتجاج کر رہے تھے اور ان میں سے کچھ نے ہاتھوں میں ڈنڈے بھی اٹھا رکھے تھے۔

مقامی پولیس سٹیشن کے دروازے کے باہر کافی پتھر بھی پڑے تھے جو غالباً مظاہرین کی جانب سے برسائے گئے تھے۔ آس پاس کے جتنے بھی بازار تھے ان کی تمام دکانیں بند تھیں۔ کیونکہ انجمن تاجران کی جانب سے ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔

جب اہلیان شہر سے بات ہوئی تو ان کا غم و غصہ ان کے لب و لہجے سے صاف ظاہر تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایک گمشدہ بچے کے والدین نے کپڑوں کی شناخت کرلی

زینب کیس: کیا قصور میں اب بچے محفوظ ہیں؟

بس چلے تو اسے چوک پر پھانسی پر لٹکاؤں: شہباز

مسجد اور فیضان کا گھر

جس سے بھی فیضان (بچہ جسے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا) کے گھر کا پتا پوچھا اس نے مسجد کا راستہ دکھا دیا کیونکہ فیضان اس مسجد کے امام محمد رمضان کا بیٹا تھا۔ مسجد کے باہر تعزیت کے لیے آنے والوں کا رش تھا۔

ان افراد کو چھوڑ کر اوپر پہنچی تو وہاں خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی جو اپنے درمیان بیٹھی فیضان کی ماں کو دلاسہ اور تسلی دے رہی تھی لیکن فیضان کی والدہ کی آنکھوں سے لگی آنسوؤں کی جھڑی تھم نہیں رہی تھی۔

چونیاں

فیضان کی والدہ نے کیا بتایا

اپنا تعارف کروانے کے بعد فیضان کی والدہ سے واقعے کے متعلق جاننے کے لیے بات شروع ہی کی تو ایسا لگا کہ شاید ان کو اسی کا انتظار تھا کہ کوئی آئے اور ان کے دل کی بات سنے۔

کہنے لگیں ’مجھے انصاف دلواؤ گی۔‘

انھوں نے کہا ’فیضان اپنے بھائی عبدالرحمان کے ساتھ ساڑھے پانچ بجے دکان سے کچھ خریدنے گیا۔ فیضان گھر نہیں آیا جبکہ دوسرا بیٹا گھر آ گیا۔ میں اس سے پوچھا کہ بھائی کہاں ہے۔ اس نے جواب دیا کہ امی مجھے نہیں پتا میں نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو فیضان میرے ساتھ نہیں تھا۔ میں گھر سے نکلی اور فیضان کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔‘

فیضان کی والدہ کے مطابق تھوڑی ہی دیر میں، انھوں نے پولیس کو فون کیا اور بتایا کہ ان کا بچہ نہیں مل رہا۔ ’میں نے ان سے کہا میرا فیضان گم ہو گیا ہے، اسے ڈھونڈیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس والے آئے اور پوچھ گچھ کر کے چلے گئے۔

’پھر میں نے قصور پولیس کے بڑے افسر کو فون کیا، وہ آئے تو میں نے ان کا بازو پکڑ کر کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں پولیس کیوں نہیں غریب بندے کی بات سنتی۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں پتا کرتا ہوں۔‘

فیضان کی والدہ نے بتایا کہ ’اس افسر نے مجھے یقین دہانی کروائی کہ میں تمہارا بیٹا جلد ڈھونڈ دوں گا۔ مگر میں نے کہا کہ مجھ سے سچ بات کرو کیونکہ پہلے ہی ہمارے علاقے میں دو تین بچے اغوا ہو چکے تھے۔ ان بچوں کے لواحقین پولیس کو بلا کر لاتے تھے اور پولیس بس سب دیکھ کر چلی جاتی تھی۔‘

چونیاں

فیضان کی والدہ نے پولیس اور اعلی حکام سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس پہلے اپنا کام درست انداز میں کرتی تو ان کے بچے کو بچا سکتی تھی

فیضان کی والدہ کے مطابق پولیس نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ وہ اگلے دن تین بجے تک ان کا بچہ ڈھونڈ لائیں گے مگر اگلے دن تین بجے فیضان کی جگہ اس کی لاش گھر آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے پولیس کا مطلع کیا تھا ’اگر اس وقت سے پولیس اپنا کام درست انداز سے کرتی تو وہ میرے بچے کو بچا سکتے تھے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس وقت تک ظالم میرے بیٹے کو دور نہیں لے کر گئے تھے۔‘

علی حسنین کے والدین

فیضان کی والدہ سے گفتگو جاری تھی کہ مسجد کے باہر پولیس کی نفری پہنچ گئی۔ پتا چلا کہ وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت اور آئی جی پنجاب عارف نواز وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی ہدایات پر چونیاں پہنچ رہے ہیں۔

ارد گرد نظر دوڑائی تو وزیرِ قانون کی آمد سے قبل سڑک پر جھاڑو لگ رہی تھی۔ موقع پر موجود صحافی بحث کر رہے تھے کہ یہ اعلیٰ حکام پہلے کس متاثرہ خاندان کے گھر جائیں گے مگر کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ تمام متاثرہ خاندانوں کو مسجد میں بلا لیا گیا ہے تاکہ حکام سب سے وہیں مل سکیں۔

یہیں میری ملاقات ایک اور لاپتہ بچے علی حسنین کے والدین افضال اور فرزانہ سے ہوئی۔ فرزانہ سے بات شروع کی تو انھوں نے رونا شروع کر دیا۔ روتے ہوئے بولیں ’میرا بچہ ایک مہینے تین دن سے غائب ہے۔ میری کسی نے کوئی مدد نہیں کی مجھے انصاف دلوا دو، میرا بچہ ڈھونڈ دو۔‘

انھوں نے بتایا کہ علی حسنین ان کا سب سے بڑا بیٹا ہے اور وہ اپنے والد کے ساتھ مل کر کباڑیے اور پراندوں کا کام کر کے گھر کا خرچہ چلاتا تھا۔

’ہم بہت غریب ہیں۔ مجھے پتا چلا کہ میرے بیٹے کی ویڈیو ایک کیمرے میں نظر آئی ہے۔ میں نے اپنا سامان بیچ کر فلیش ڈرائیو لے کر اس میں ڈلوائی۔ پولیس کو دی لیکن پھر بھی پولیس نے کچھ نہیں کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب پولیس کے پاس جاتی تھی تو کہتے تھے کہ تمہارا بچہ خود گھر سے گیا ہو گا۔ جا کر اپنے رشتہ داروں یا دربار یا میلے میں تلاش کرو۔‘

یہ سب بتاتے ہوئے فرزانہ زاروقطار روتی رہیں اور جب رونے کی سکت ختم ہو گئی تو بےہوش ہو گئیں۔

علی حسنین کے والد محمد افضل نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک ماہ سے اپنے بچے کو تلاش کر رہے ہیں۔ ‘ایک ماہ ہو چکا ہے ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکا۔ چونیاں چھوڑ سارے قصور ضلع، پاک پتن جہاں جہاں پہنچنا ممکن تھا تلاش کر چکے ہیں مگر بچے کا کوئی پتا نہیں چلا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ان کے خون کے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں اور انھیں بتایا گیا ہے کہ جلد ہی اطلاع دیں گے کہ علی حسین کے جسم کی کون کون سے باقیات ملی ہیں۔

چونیاں

پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کا پیش آنا انسانیت کے نام پر بد نما داغ ہیں

وزیر قانون اور آئی جی پنجاب کی پریس کانفرنس

گو کہ متاثرہ خاندانوں کو بلوایا گیا تھا لیکن اعلیٰ حکام نے صرف فیضان کے والد سے تعزیت کی اور اپنی پریس کانفرنس کا آغاز کر دیا۔ وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کا پیش آنا انسانیت کے نام پر بد نما داغ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ انتظامیہ سے رابطے میں ہیں اور پیش رفت کے حوالے سے بریفنگ بھی لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت اس شہر کو محفوظ بنانے کے لیے قصور کی طرح سیف سٹی منصوبہ لگائیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی یقیی بنائیں گے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کوئی کثر نہیں اٹھا رکھی جائے گی۔

آئی جی پنجاب عارف نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی پانچ ٹیمیں اس معاملے پر صبح شام کام کریں گی۔ یہ کیس ان کی ترجیح ہے اور وہ ذاتی طور پر اس کی نگرانی کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ’بہت ظلم ہوا ہے ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد مجرم کو پکڑ لیں۔ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او چونیاں کی سستی کی وجہ سے یہ واقعات ہوئے۔‘

علی حسنین کی شاخت

رات گئے پولیس کی جانب سے علی حسینن کے والدین کو ایک مرتبہ پھر بلوایا گیا۔ فرزانہ (علی کی والدہ) نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے انھیں خون سے بھرے ان کے بیٹے کے کپڑے دکھائے۔

’بھورے رنگ کے کپڑے میرے بیٹے کے ہی تھے۔‘

’مجھے امید تھی کہ شاید میرا بیٹا زندہ ہے لیکن وہ امید بھی ٹوٹ گئی۔ ہم غریب لوگ ہیں ہماری کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ہمیں انصاف دلوا دو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp