کچھ کر نہیں سکتے تھے تو تبدیلی کا نعرہ کیوں لگایا؟


پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے لاکھوں نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ روزگار دینا تو دور کی بات بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ نوجوان اپنی قوم کا زندہ اور رواں خون ہوتا ہے جن کے بغیر قوم ایک بے روح جسد کی مانند ہے۔ اور خوش قسمتی سے ہمارے ملک کی کم و بیش چونسٹھ فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے جبکہ انتیس فیصد جو ہے وہ پندرہ سے انتیس سال کی عمر کے درمیان ہے۔

ہمارے محسن بانی پاکستان بھی نوجوانوں کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ایک بار خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا، ”میرے دل میں نوجوانوں خصوصاً طالب علموں کی بڑی قدرو منزلت ہے۔ آپ پر قوم اور والدین کی طرف سے بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ متحد ہوکر ملکی تعمیر و ترقی میں مصروف ہوجائیں“۔

تعلیم کسی بھی انسان کی بنیادی ضروریات میں ہے۔ سرکاری سکولوں میں ملکی تعلیمی نصاب جبکہ نجی سکولوں میں غیر ملکی نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ جس سے طالبعلموں میں تقسیم پیدا ہو رہی ہے، جو ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ اور عام شہریوں کے بچوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ ایک جیسی تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے خاص طور پر وہ حکومت جو انصاف کا نعرہ لگاتی رہی ہے۔ ہمارے ملک کے سیاستدان اور دوسرے پیسے والے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے باہر بھیج دیتے ہیں یا پھر ملک کے مہنگے ترین پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروادیتے ہیں جبکہ عام انسان اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم دلوانے پر مجبور ہوتا ہے۔ تعلیم سب کے لیے ایک جیسی ہونی چاہیے۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

اور ایسے بچے جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر تعلیم نہیں حاصل کر پاتے یا سرے سے ہی سکول کا منہ تک نہیں دیکھ پاتے، ان کی ذمے داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پندرہ سے بیس ملین بچے ایسے ہیں جو سکولوں سے باہر ہیں اور وہ ایک دن بھی سکول نہیں گئے۔ حکومت کو ایسے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ ان سب کے باوجود جو لوگ پڑھ لکھ جاتے ہیں ان کے لیے وسائل انتہائی کم ہیں۔ اس پر بھی حکومت کو توجہ دینی ہو گی۔ ایسے لوگوں کے لیے روزگار مہیا کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔

اب آتے ہیں پولیس پر خاص طور پر پنجاب پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جو انتہائی بوسیدہ ہوچکا ہے۔ یہ ادارہ ہے جسے شاید اس لیے بنایا گیا تھا کہ اگر معاشرے کے کسی فرد کے ساتھ ظلم، زیادتی یا نا انصافی ہوتی ہے تو وہ انصاف کے لیے پولیس کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ مگر نہیں لوگ ان کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ پس یہاں بھی غریب رہا ہے، جاگیر دار، پیسے والا یا ایم پی اے اور ایم این اے وغیرہ سے تعلق رکھنے والے یہاں بھی بچ جاتے ہیں۔ تو پھر کیوں بنایا ایسا ادارہ جو کسی مظلوم کو انصاف نہیں دلوا سکتا۔

ہاں ان کو صرف مارنا آتا ہے وہ بھی بے گناہ یا ابنارمل لوگوں کو، صلاح الدین جیسے لوگوں کو وہ بھی اتنا اچھا مارتے ہیں کہ مار ہی دیتے ہیں۔ بوڑھی عورتوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔ محترم وزیراعلٰی صاحب آپ کی جماعت کا تو نام ہی تحریک انصاف ہے تو کب انصاف دلواؤ گے؟ خدارا پولیس میں اصلاحات کریں۔ ان کی اچھے طریقے سے تربیت کریں تاکہ معاشرے سے ظلم، نا انصافی اور زیادتی کے واقعات کم ہوں۔

اس کے علاوہ عدالتوں میں بیس بیس سالوں سے کیس چل رہے ہیں مگر انصاف نہیں مل رہا۔ بلکہ یہاں بھی انصاف بک رہا ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ ”Justice delayed is justice denied“ خیر یہاں تو دیر بعد بھی انصاف مل جائے تو غنیمت ہے۔ لوگ ڈرتے ہیں بچتے ہیں کہ ان کو عدالتوں میں نہ ہی جانا پڑے کیوں کہ کہتے پاکستانی عدالتوں سے فیصلہ لینے کے لیے قارون کا خزانہ، خضر علیہ سلام جتنی عمر اور ایوب علیہ سلام جتنا صبر چاہیے۔ مہربانی ہوگی اس میں بھی کچھ بہتری لائی جائے۔ خالی لیکچر اور دعوے بہت ہوچکے ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں کی حالت سب کے سامنے ہے، اول تو سرکاری ہسپتالوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہے اور جو ہسپتال ہیں ان میں بھی سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں۔ مر یہاں بھی غریب ہی رہا ہے ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹنے پر مجبور ہیں۔ انصاف کے نام سے بننے والی جماعت اس وقت اقتدار میں ہے مگر کہیں بھی انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا۔

محترم وزیر اعظم صاحب مجھ سمیت آپ بہت سے لوگوں کی امیدوں کے محور تھے اور ہیں بھی، اگر آپ نے بھی مایوس کر دیا جو اب تک کر رہے ہیں تو لوگوں کا حکومت اور سیاست پر سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ اور پھر پہلے کی طرح زرداری اور نواز شریف کی جگہ، مریم نواز اور بلاول بھٹو کی باریاں شروع ہوجائیں گی۔ اور عوام کسی پر بھی امید نہیں لگا پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).