ڈینگ مت ماریں۔ ڈینگی ماریں


کالم کی ابتداء میں ہی ایک لطیفہ یا دا ٓگیاہے سن لیجیے تا کہ بات آگے بڑھے۔ ”کسی سردار کو دن کے وقت مچھر نے کا ٹ لیا سردار صاحب نے غصے سے کہا ’او کم بخت تیری ڈیوٹی تو رات کو کاٹنے کی ہے‘ مچھر بولا ’سردار صاحب مہنگائی بہت ہوگئی ہے اوور ٹائم لگا رہا ہوں۔‘“ ہمارے ہاں بھی لگتا ہے کہ مہنگائی سے تنگ آکر ڈینگی مچھر اوور ٹائم لگا رہا ہے۔ تب ہی تو ڈینگی سے متا ثرہ مریضوں کی تعداد میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 2135 مریض رواں سال ڈینگی مچھر کا شکار ہو چکے ہیں۔ سابقہ دور حکومت میں جب ڈینگی مچھر نے سراٹھایا تھا تو اس وقت کے وزیر اعلی جناب شہباز شریف صاحب نے ڈینگی مچھر کو سیاسی مخالفوں کی طرح پچھاڑ دیا تھا۔ ڈینگی مچھر کا قلع قمع کرنے کے لیے کئی موثرا قدامات کیے تھے جن میں سر فہرست عوامی آگاہی مہم کا آغاز کا تھا جس کے تحت شہریوں کو ڈینگی مچھر سے بچاؤ کے طریقے بتائے گئے تھے۔

ہر یونین کونسل میں مچھر مار سپرے موثر انداز میں کیا گیا تھا۔ نیز متاثرہ مریضوں کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی بھی نافذ کر دی گئی تھی۔ لیکن موجودہ پنجاب حکومت ڈینگی مچھر کے لیے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ارباب اختیار سے اتنا بھی نہیں ہو پا رہا کہ ماضی میں ”انسداد ڈینگی پروگرام“ ’کے تحت کیے گئے اقداما ت کو ہی ایک بار دہرا دیں تاکہ مچھر کی ”تباہ کاریاں“ روکی جا سکیں۔ افسوس صد افسوس حکام بالاثمرآور اقدامات کرنے کی بجائے روایتی بیانات سے کام چلا رہے ہیں۔ خاکم بدہن اگر ”مچھر گردی“ اسی طرح جاری رہی تو کوئی سماجی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ڈینگی وائرس کے روک تھام کے ٹھوس منصوبہ بندی کرے تا کہ اگلے برس ڈ ینگی مچھر پھربے بس شہریوں کے سامنے سینہ تان کر یہ نہ کہے

پھر آگیا ہوں گردشِ دوراں کو ٹال کر

میرا خیال ہے اگر ڈینگی مچھر پر بے نامی جائیداد اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگا دیے جائیں تو نیب بھی ”انسداد ڈینگی وائرس“ کی مہم میں شامل ہوجائے گا۔ اس طرح ڈینگی مچھر اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بن جائے گا۔ ٹی وی ٹاک شوز میں ”مچھر گردی“ پر مباحثے شروع ہو جائیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں شور مچائیں گی تو حکومتی ادارے بھی حرکت میں آجائیں گے۔ ہسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کر دی جائے گی۔ مریضوں کی آؤ بھگت شروع ہوجائے گی۔

سیاسی قائدین ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جذبہ ریاکاری سے آلودہ یہ سرگرمیاں کچھ ہی دن جاری رہیں گی کہ ایک دن اچانک کوئی حکومتی عہدے دار پریس کانفرنس میں یہ ڈینگ مارتے ہوئے سنائی دیں گے کہ ”شبا نہ وروز محنت اور ٹھوس حکمت عملی کی بدولت ڈ ینگی وائرس کا جن ہم نے بوتل میں بند کر دیا ہے لہذا ہم پر دادو تحسین کی ڈنگرے برسائے جائیں۔“ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ اموات مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہیں۔ ملیریا جیسے مہلک مرض میں بھی موصوف براہ راست ملوث ہیں۔ مچھر کی تباہ کاریاں دیکھ کر ہمیں اب ”صفائی نصف ایمان ہے“ کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہو جا نا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے گلی محلوں کو صاف رکھیں تا کہ ایسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے جیسا کہ شاعر کو کرنا پڑ رہا ہے

تم نہ باز آئے بہت جسم پر چادر تانی
اب تو کچھ دن سے لگا لیتا ہوں مچھر دانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).