منیب اور مغیث کے قاتلوں کی سزا میں نرمی کیوں ہوئی؟


تین سو لوگوں کا ہجوم ہے۔ دو پولیس اہلکار جن کے ایک ہاتھ میں سرکاری رائفل ہے جبکہ دوسرے ہاتھ سے زمین پر پڑے خون میں لت پت دو لڑکوں کو الٹا کرکے دیکھتے ہیں کہ زندہ ہیں یا مرگئے ہیں۔ اتنے میں پیچھے سے ہاتھ میں ڈنڈے لیے بارہ کے قریب لوگ آگے آتے ہیں اور ان دونوں لڑکوں کو مارنا شروع کرتے ہیں۔ نیم برہنہ لڑکے ڈنڈوں کی وجہ سے کروٹ لیتے ہیں اور انہیں پھر بھی لگاتار مارا جارہا ہے۔ کبھی سر میں تو کبھی جسم کے باقی حصوں پر۔

پھر تین سے چار لوگ لمبی سی رسیاں لے کر آتے ہیں اور ان دونوں لڑکوں کو، جو بظاہر لگتا ہے کہ مر چکے ہیں، انہیں باندھ کر سڑک پر پولیس والوں کے سامنے گھسیٹتے ہوئے ایک بلڈنگ کے پاس لیجایا جاتا ہے اور بلڈنگ کے باہر لگے پائپ کے ساتھ الٹا لٹکا کرباندھ دیا جاتا ہے اور ان دونوں لڑکوں کے ساتھ تصاویر اور سیلفیاں لی جاتی ہیں اور انہیں تب تک لٹکایا جاتا ہے جب تک یہ کنفرم نہ ہوجائے کہ وہ مرگئے ہیں۔

یہ دو لڑکے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے دو بھائی منیب اور مغیث ہیں جن کو ڈاکو سمجھ کر ماردیا جاتا ہے۔ جس بلڈنگ کے ساتھ باندھا جاتا ہے وہ جان بچانے والے ادارے یعنی ریسکیو 1122 کی بلڈنگ ہے اور جس پائپ کے ساتھ باندھا جاتا ہے وہ پائپ گاڑیوں میں پانی بھرنے کے کام کرتے ہیں تاکہ کہیں آگ لگ جائے تو اسے بجھایا جائے۔ مجمع میں ایک شخص رو رو کر سب کو رکنے کا کہتا ہے لیکن اس کی کوئی نہیں سن رہا۔ دونوں بھائی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

حکومت وقت کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کو ہوش آتا ہے اور سو موٹو لے لیاجاتا ہے۔ معاملہ ٹرائل کورٹ میں جاتا ہے تو 7 افراد کو سزائے موت جبکہ باقی 5 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے جسے بعد میں ہائیکورٹ میں چیلنج کیاجاتاہے لیکن ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا ہے۔ 2015 میں ڈیتھ وارنٹ جاری کیے گئے توسارے ملزمان اپیل میں چلے گئے اور پھانسی پر عملدرآمد روک دیا گیا۔

آج آفس پہنچا تو ایک خبر پڑھی ”سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے قتل میں ملوث 7 ملزمان کی سزائے موت اور 5 ملزمان کی عمر قید کو دس دس سال قید میں تبدیل کرنے کا حکم دیدیا گیا۔“ خبر سنتے ہی ایک دوست کا ایک جملہ یاد آگیا۔ جب جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے چیف جسٹس پاکستان کا حلف لیا تو دفتر میں بیٹھے ہوئے چائے کا سپ لیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”کھوسہ صاحب کے دل میں سزائے موت کے قیدیوں کے لیے بہت ہمدردی ہے اور کریمنلز بڑی دلیری کے ساتھ ان کی عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں۔“ میں بڑا حیران ہوا اور پوچھا کہ ایسا کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ ”اپنے 20 سالہ صحافتی کیرئیر میں میں نے تو ایسا ہی دیکھا ہے۔“ اس وقت تو ان کی بات سمجھ نہ آئی اور اس بات اگنور کردیا۔

میں نے فوری طور پر اپنے ایک دوست کو فون کیا جو کہ سابق پراسیکیوٹر نیب اور 35 سال کا وکالت میں تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کو سارا کیس سنایا تو ان کا کہنا تھا کہ قتل کے مقدمہ میں صرف ایک آپشن ہوتی ہے جس کے مطابق قتل کے ملزمان کو ریلیف مل جاتا ہے اور ان کی سزا میں کمی کی جاتی ہے اور وہ ہے کہ اگر قتل کو یہ ثابت کردیا جائے کہ ”ایک مجمعے میں اچانک سے کچھ ایسے حالات پیدا کردیے جائیں کہ وہاں کسی کو کچھ سمجھ نہ آئے، لوگ آپس میں لڑیں، ایک دوسرے کو ماریں اور اس مار دھاڑ میں لوگ مارے جائیں تو مقدمہ تو دائر ہوگا لیکن اس طرح سے نہیں چلے گا جس طرح ایک قتل کے ملزم کے خلاف چلتا ہے اور اس کی جگہ ہمارے قانون میں موجود ہے۔“

جب دس سال سزا کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی ایک دم سے حیرانی کے عالم میں پوچھا کہ ”کہیں یہ سو موٹو کا کیس تو نہیں تھا؟“ میں نے کہا کہ جی بالکل سو موٹو کیس کا فیصلہ ہی سنایا گیا ہے۔ تو کہنے لگے کہ ”اب فیصلہ پڑھ کر پتا چلے گا کہ معاملہ اصل میں پیش کیا آیا لیکن ایک بات تو کنفرم کہی جاسکتی ہے کہ اگر ان کی پروسینڈنگز 382 CRPC کے تحت ہوئی ہے تو جس دن سے ان کو گرفتار کیا گیا اس دن سے لے کر فیصلے کے دن تک کے جو دن ہیں وہ بھی اس سزا میں شامل کیے جائیں گے۔ مطلب مقدمہ 2010 میں ہوا آج فیصلہ 2019 میں ہوا تو اگر پروسیڈنگزاوراوپر مینشن کیے گئے آرٹیکل کو لے کر ہوئی تو یہ نو سال بھی سزا میں شامل ہوں گے اور دس سال کی قید ہے تو ایک سال مزید قید کے بعد ملزمان رہا کردیے جائیں گے۔“

ان کی یہ بات سن کر ایک دفعہ پھر پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ ویڈیو میرے سامنے چلنے لگی جس میں انتہائی بے دردی سے ان دونوں بھائیوں کو قتل کیاگیا۔ لیکن کمزور قانون اور وکلاء کے جھوٹے سچے داؤ پیچ سے ملزمان سزا ئے موت سے بھی بچ گئے اور عمر قید سے بھی بچ گئے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غلطی کہاں ہوئی؟ بقول چیف جسٹس کے ”یہ نتیجہ جو آج پیش آیا سو موٹو کی وجہ سے آیا کیونکہ سوموٹو کی وجہ سے 5 دن بعد جو دوسری ایف آئی آر درج کی گئی اس میں میں قتل ہونے والے دو بھائیوں کا نام درج نہیں کیا گیا اور نہ ہی زخمیوں کے نام لکھے گئے، اور تو اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی نامعلوم لکھا گیا۔ سپریم کورٹ موقع پر موجود نہیں تھا اس لیے کیس کمزور ہوا اور مجرمان کو اس کا فائدہ ہوا۔“ جسٹس ثاقب نثار کی تقریروں میں سے ایک بات جس کی آج بہت شدت سے یاد آئی ”ہم انگریز دور کا قانون لیے بیٹھے ہیں پارلیمنٹ نے قانون میں تبدیلی کرنی ہے میں نے بہت دفعہ پارلیمنٹ کو کہا کہ قانون میں ترمیم کریں۔“

سرعام سڑک پر دو بھائیوں کو قتل کرنے والے جب سزا (علامتی ) پوری کرکے اسی شہر میں جائیں گے تو سمجھ نہیں آتی کہ چماٹ کس کے منہ پر پڑے گی؟ پولیس؟ جوڈیشری یا اسی عوام کے ووٹ سے پارلیمنٹ میں بیٹھے آئین و قانون کے علمبرداروں کے منہ پر؟ وقت آچکا ہے کہ اب پارلیمنٹ میں بیٹھ کے کرپشن کے طریقے ڈھونڈنے کی بجائے آئین اور قانون کے بارے میں سوچا جائے اور اس میں ترمیم کرکے صحیح اور حقیقی انصاف عوام تک پہنچایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).