جے یو آئی متوقع لاک ڈاؤن۔ کیا اسلام خطرے میں ہے؟


جمعیت علماء اسلام (ف) ان دنوں موجودہ پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس معرکے میں دوسری اپوزیشن جماعتیں بالخصوص پی پی پی اور مسلم لیگ ن ساتھ دے یا نہ دیں لیکن مولانا فضل الرحمن کی جماعت بہر صورت میدان میں اترنے والی ہے۔ اکیلا میدان میں آنے کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس معرکے کو سَر کرنے کے لیے جے یوآئی خود بھی بھرپور قوت کا مظاہرہ کرسکتی ہے کیونکہ اس کے پاس دوسری کسی بھی مذہبی جماعت کے مقابلے میں دینی مدارس کے طلباء کی صورت ایک بڑی فورس موجود ہے۔ دینی مدارس کے تعلیمی بورڈ وفاق المدارس سے یہ اندازہ بہتر طور پر لگایاجاسکتا ہے کیونکہ مذکورہ بورڈ کے پاس اس وقت ملک کے بیس ہزار چھ سو پچاس مدارس بشمول شاخہائے رجسٹرڈ ہیں۔

لگ بھگ بیس لاکھ طلباء ان مدرسوں میں زیرتعلیم جبکہ ایک لاکھ سے زائد اساتذہ ان اداروں سے بطور مدرسین منسلک ہیں۔ اگرچہ ان سب طلباء اور اساتذہ کا سیاسی رشتہ جے یو آئی سے نتھی کرنا مبالغہ ہوگا تاہم اس فیگر کے آدھے لوگ ضرور اس جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں، یوں ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ افراد کی شرکت بھی اس دھرنے کو ایک بڑا اجتماع ثابت کرسکتا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا صاحب کے اس متوقع دھرنے یا آزادی مارچ سے حکمران جماعت کو بہت پہلے سے اضطراب اور پریشانی کا بخار لاحق ہوچکاہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ دارالحکومت اسلام آباد میں وسیع پیمانے پر حکومت وقت کے خلاف کریک ڈاون کے نتیجے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مولانا کا احتجاجی دھرنا نہ صرف محض جواز کی حد تک صحیح ہے بلکہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنا جے یوآئی اور کسی بھی دوسری جماعت کا سیاسی اور جمہوری حق بنتا ہے۔ اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان ہی کی جماعت بھی مسلم لیگ ن کے خلاف اسلام آباد میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرچکی ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ پی ایم ایل این کے خلاف پی ٹی آئی والوں نے نہ صرف ایک سوچھبیس دن تک دھرنا دے کر نظام کومعطل کیاتھا بلکہ اس دوران یہ وقتاً فوقتاً اخلاقی حدود کی پامالی بھی کرتے رہے۔

میں سمجھتاہوں کہ جے یوآئی والے اپنے دھرنے کے دوران وہی اخلاقی غلطیاں ہرگز نہیں دہرائیں گے جو ان کے حریفوں نے کی تھیں۔ جے یو آئی اس لئے بھی محتاط رہے گی کیونکہ مولانا اپنی جماعت اور پی ٹی آئی کے پروگرام کے درمیان بُعدالمشرقین کے قائل رہے ہیں یوں وہ اپنے کارکنوں کو بہت حد تک منفرد پیش کریں گے۔ بلکہ یہاں تک سنا ہے کہ اس دھرنے میں اسلام آباد کی سڑکوں پر گانے اور رقص و سرود کی بجائے شرکاء نمازوں، تلاوت قرآن اور درس وتدریس سے دلوں کو گرمانے کا اہتمام کریں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اس دھرنے میں ایسا ہی نظم اور احتیاط ہو کہ پھول توڑنے اور نہ ہی پھولدان توڑنے تک کی نوبت آئے۔

البتہ جے یو آئی اس مارچ میں (بلکہ مارچ سے قبل بھی ) جو غلطی کرنے جارہی ہیں، وہ ”اسلام اور ختم نبوت“ کو دفاعی پوزیشن میں دکھانے کی غلطی ہے۔

یاد رہے کہ اپنے حریف عمران خان کو سیاسی طور پر زیرکرنے کے لئے مولانا فضل الرحمن شروع دن سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت اور پروگرام سے اسلام اور شعائر اسلام کو خطرات لاحق ہیں۔

حالانکہ مولانا صاحب کے اس بیانیے سے صرف وہی لوگ متفق نظر آتے ہیں جو بے چارے اُن کی تقلید کو یا تو واجب سمجھتے ہیں یا پھر چند سیاسی اور دنیوی مفادات کی خاطر اس قسم کی قبیح بدگمانی کا گناہ اپنے سر لے رہے ہیں۔ غور کیا جائے توکئی حوالوں سے مولاناصاحب کی یہ غلطی پی ٹی آئی کے دھرنے میں ہونے والی سب غلطیوں پر بھاری بھی ہے اور اس سے خطرناک بھی۔

اس ملک میں اسلام کو پیش ہونے والے نام نہاد خطرات کے بارے میں ممتاز اسکالر اورکالم نگار خورشید ندیم نے خوب کہا ہے کہ ”جس ملک کی ستانوے فیصد آبادی مسلمانوں کی ہو اور ان میں بھی کم وبیش نوے فیصد وہ لوگ ہوں جو اسلام کے نام پر جان دینے اور لینے کے لئے ہروقت آمادہ رہتے ہوں۔ جس ملک کے متفقہ آئین میں درج ہو کہ اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے اور یہ کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ جس ملک میں بھٹو اور مشرف جیسے لبرل حکمران بھی شراب پر پابندی عائدکردیں اور خواتین کے حقوق کے لئے قانون سازی کرتے وقت روشن خیال اسکالرز کو روایتی علماء پر ترجیح دیں۔ جس ملک میں عدلیہ اتنا بیدار مغز ہو کہ لبرل ازم کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوں۔ جہاں حکومت دین کے بارے میں اتنی غیرت مند ہو کہ وزیر داخلہ کو سوشل میڈیا بندکرنے کا اعلان فرمائیں۔ ایسے ملک میں اسلام کو کیا خطرہ درپیش ہوسکتا ہے؟“

اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی چندے کی پرچیاں دیکھ کر مجھے بڑا تعجب ہوتا ہے جن پر ”تعاون بسلسلہ تحفظ ختم نبوت اور آزادی مارچ“ جلی حروف میں لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اپنے سیاسی حریف کے خلاف مذہب اور ختم نبوت جیسے مقدس اور محفوظ عقیدے کا کارڈ استعمال کرکے مولاناصاحب اس دھرنے کے لئے کروڑوں روپے چندہ بھی اکٹھا کرسکیں گے اور لاکھوں کی تعداد میں طلباء اور علماء بھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مذہب کے مقدس نام پر مولاناصاحب کا یہ متوقع اجتماع حکومت وقت کو گھر بھی بھیج سکے لیکن ایک دن ایسا ضرور آنے والا ہے جس میں اس نوعیت کی ڈرامہ بازیاں نہیں بلکہ حساب دینا ہوگا۔

مرحوم جالب یاد آئے جنہوں نے ایسے ڈراموں کے بارے میں دہائیاں پہلے فرمایا تھا کہ

خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو

صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).