علی وزیر کی اہلیہ: ’بچوں کی باپ سے جیل میں ملاقات کروانا آسان نہ تھا‘


علی وزیر

علی وزیر کو پہلے پشاور اور پھر ہری پور جیل میں قید کیا گیا تھا

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور ہائیکورٹ نے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکانِ قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں محسن داوڑ اور علی وزیر کی ضمانت منظور کر کے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

ان دونوں رہنماؤں کو رواں برس مئی میں خاڑقمر میں پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان اور پاکستانی فوجیوں کے درمیان جھڑپ میں ہلاکتوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ دورانِ حراست قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران ان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کا معاملہ بھی گرم رہا جبکہ ان کی گرفتاریوں اور دورانِ قید ان سے روا رکھے جانے والے سلوک پر بھی سوشل میڈیا پر بحث کا سلسلہ جاری رہا۔

بی بی سی اردو نے علی وزیر کی اہلیہ سے ان کے شوہر کی حراست اور اس عرصے میں ان کی زندگی پر پڑنے والے اثرات پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ابتدا میں اپنے شوہر سے ملاقات کے لیے ہر وہ کوشش کی جو ضابطے کے تحت ضروری ہوتی ہے لیکن نہ میری حیثیت کام آتی اور نہ ہی میرے شوہر کے وکیل شہاب کا حوالہ۔‘

شعبۂ تدریس سے وابستہ سائرہ نواب کے مطابق جب پشاور سینٹرل جیل میں آنے والے ملاقاتی انتظار کے لیے بیٹھے دیگر ملاقاتیوں سے پوچھتے کہ آپ کدھر سے آئے ہیں تو ’مجھ سے بھی یہی سوال ہوتا لیکن بس پھر وہاں ڈیوٹی پر موجود کوئی اہلکار کہہ دیتا کہ یہ پی ٹی ایم والے کی بیوی ہے اس سے کوئی بات نہ کرے اور اس وقت میں دل میں سوچتی تھی یہ ایسے بولتے ہیں جیسے کسی نے بہت سے قتل کر دیے ہوں۔

دیگر ملاقاتی تو ملاقات کر لیتے تھے لیکن میں اور میرے بچے انتظار کرتے رہ جاتے تھے اور گرمی سے جھلستے ہم مایوس لوٹ جاتے تھے۔‘

سائرہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ خاصے عرصے تک تو انھیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ علی وزیر کو کہاں رکھا گیا ہے۔ ’پہلے خبر نہیں تھی کہ وہ ہیں کہاں پھر پتا بھی چلا تو ملاقات کی اجازت مسئلہ بنی یوں 26 مئی سے تین جولائی تک ہماری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

تاہم ان کا کہنا تھا ’جیل کے فون سے علی ہفتے میں ایک بار تین منٹ کے لیے بات کر لیتے تھے لیکن مجھے فون پر ان کی گفتگو بے ربط لگتی تھی۔ میں دل میں سوچتی تھی کہ کہیں یہ ریکارڈنگ تو نہیں چل رہی۔ میرا سوال کچھ اور ان کا جواب کچھ اور ہوتا ہے۔ جیسےان کی ذہنی حالت ٹھیک نہ ہو۔‘

اس وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے سائرہ نواب نے کہا کہ ’وہ وقت بہت کٹھن تھا۔ بچوں کے سوالوں کے جواب اور انھیں جیل میں باپ سے ملاقات کے لیے لے کر جانا آسان نہیں تھا۔

’ہمارا کلچر عورت کے تھانے کچہری جانے کو پسند نہیں کرتا لیکن میرے لیے بچوں کی باپ سے ملاقات بہت ضروری تھی۔ وہ اپنے والد کے بہت قریب ہیں۔ میرے لیے طویل عرصے تک انھیں والد سے الگ رکھنا ممکن نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ علی وزیر کی ہری پور جیل منتقلی کے بعد ان کی مشکلات میں تو مزید اضافہ ہوا لیکن ملاقات کا ماحول بہتر ہو گیا۔

پشاور جیل

علی وزیر کی اہلیہ کے مطابق پشاور جیل کے عملے کے برعکس ہری پور جیل میں عملے کا رویہ بہت بہتر تھا

’ہمارا سفر اور طویل ہو گیا۔ پہلے پشاور تک تھا لیکن اب ڈی آئی خان سے ہری پور نو گھنٹے کا سفر جس کا مجھے 16 ہزار کرایہ دینا پڑتا تھا۔

’ہری پور جیل میں منظر یکسر مختلف تھا۔ یہاں کا عملہ ضابطہ کار پر چلتا ہے۔ ہم علی وزیر سے ملاقات کے لیے ان کے روبرو بیٹھ سکتے تھے، بات کر سکتے تھے۔ یہاں بلاوجہ کبھی ہماری ملاقات ملتوی نہیں کی جاتی تھی۔

’پشاور میں جیل حکام کا رویہ مختلف تھا اور یہاں مختلف۔ معلوم نہیں اوپر سے کس کا حکم تھا لیکن ہمارے لیے یہاں کسی نے مشکل پیدا نہیں کی نہ کبھی کسی قسم کی دھمکی یا پیغام ملا۔‘

سائرہ نواب کے مطابق ’پہلی ملاقات میں وزیر نے بتایا کہ ہاں شروع میں مار پیٹ ہوئی لیکن اب میں یہاں ٹھیک ہوں خوش ہوں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک چھوٹا سا کمرہ اور اس کے ساتھ واش روم کی سہولت دی گئی تھی انھیں اور وہیں ساتھ موجود دوسرے کمرے میں محسن داوڑ کو مگر اخبار یا موبائل اس کی اجازت نہیں تھی ہاں وہ ورزش کے لیے جا سکتے تھے اور شوگر اور بلڈ پریشر کی وجہ سے انھیں ہسپتال بھی جانا پڑتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچے بھی جیل میں علی وزیر سے ملاقات کے لیے جاتے تھے اور اپنے والد کی وہاں موجودگی پر سوال بھی کرتے تھے۔ ’میری بیٹی جب جیل میں علی سے اور مجھ سے پوچھتی کہ بابا یہاں کیوں رہ رہے ہیں، میں انھیں باہر لے کر جاؤں گی اپنے ساتھ تو اسے بہلانے کے لیے علی کہتے کہ میں نے سکول میں ایڈمیشن لیا ہے ابھی یہاں سے نہیں جا سکتا۔

’لیکن پھر ایک دن میری گیارہ سالہ بیٹی نے مجھے بتایا کہ ماما میرے سکول میں سینیئر کلاس کے لڑکے میری جانب اشارہ کر کے کہہ رہے تھے کہ اس کے ابو جیل میں ہیں، یہ علی وزیر کی بیٹی ہے۔

’میرے دس سالہ بیٹے نے بھی اس وقت کھانا پینا چھوڑ دیا تھا جب میں ایک بار اسے دو ہفتے تک اس کے بابا سے ملاقات کے لیے نہیں لے جا سکی اور پھر ایک دن اس کے سکول سے فون آیا کہ آپ کا بیٹا بےہوش ہو گیا ہے۔‘

سائرہ نواب کے مطابق انھیں امید تھی کہ علی وزیر کی ضمانت جلد ہو جائے گی لیکن یہ امید وقت کے ساتھ ٹوٹتی گئی۔ ’ہر عدالتی پیشی پر ہمیں امید ہوتی تھی کہ اب ضمانت ہو گی لیکن یونہی یہ کئی ہفتے مہینوں کی صورت میں گزر گئے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انھیں ایک خلش ہمیشہ رہے گی کہ ’کاش میرے معصوم بچے جیل کے مناظر نہ دیکھتے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میری نظر میں علی اصولوں پر کھڑے ہیں لیکن ان چار ماہ میں جب بھی میں ان سے ملی تو کہا کہ آپ کا موقف غلط نہیں، آپ اپنی بات کو منوائیں لیکن اپنے لہجے کو تبدیل کر لیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp