حکمرانی کا طرز فکر بدلنا ہوگا


پاکستان میں حکمرانی کا نظام ہمیشہ سے سوالیہ نشان کے طور پر موجود ہے۔ سول حکمرانی ہو یا فوجی حکمرانی کے ادوار سب نظاموں میں حکمرانی کا نظام لوگوں کی بنیادی توقعات اور خواہشات کی عکاسی نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو لوگ حکمرانی کے نظام حکومت سے ہمیشہ ہی نالاں نظر آتے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ بری حکمرانی کے تناظر میں ریاست اور عوام یا حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی ایک بڑی خلیج یا بداعتمادی کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگرچہ یہاں حکمرانی کے نام پر بڑے بڑے سیاسی دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر حکمرانی کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے حوالے سے جو بڑے بنیادی نوعیت کے اقدامات درکار ہیں ان سے ہمیشہ سے گریز کیا جاتا ہے۔

اصل مسئلہ اختیارات اور وسائل کی منصفانہ اور شفاف تقسیم کا ہے۔ حکمرانی کا موجودہ نظام اچھی نیت کے باوجود اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ ہمیں روایتی طرز فکر پر مبنی حکمرانی کے مقابلے میں نئی اور جدید بنیادوں پر دنیا میں پھیلی ہوئی حکمرانی کے نظام سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ ماضی کی غلطیوں اورماضی کے غلط تجربات سے ہم کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں بلکہ تواتر کے ساتھ وہی سابقہ غلطیوں اور تجربوں کو بنیاد بنا کر حکمرانی کے نظام کو اور زیادہ خراب کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

مسئلہ کسی ایک صوبہ کا نہیں بلکہ چاروں صوبوں سمیت مرکز کی عملی حکمرانی پر ہی تنقید ہونی چاہیے۔ حالانکہ 18ویں ترمیم کے بعد مرکز نے جس انداز سے صوبوں کو سیاسی، سماجی، انتظامی اورمالی طورپر مستحکم اور با اختیار کیا تو اس کے بعد صوبوں اور ضلعوں کی سطح پرحکمرانی کے نظام میں بہتر نتائج آنے چاہییں تھے۔

لیکن مرکزیت پر مبنی حکمرانی کا نظام جہاں اختیارات کا منبع ایک خاص مقصد کی بنیاد پر محدود کردیا جائے اور اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہ کیا جائے تو اس سے حکمرانی کا نظام عملی طور پر بگاڑ کا ہی سبب بنے گا۔ صوبائی حکومتیں اس وقت براہ راست بری حکمرانی کی ذمہ دار ہیں جو ذہنی طور پر ضلعی سطح پر حکمرانی کے نظام کو تقسیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی ایک اہم مثال ملک کے چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کو کمزور کرنے کا کھیل ہے۔ اس کھیل میں براہ راست صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اگر ضلعی حکومتیں مضبوط ہوں گی تو اس کے نتیجہ میں صوبائی حکومتوں یا صوبائی نمائندوں کی حیثیت کمزور ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکومتوں کے سیاسی ادوار میں سب سے زیادہ سیاسی عمل میں استحصال ان ہی مقامی حکومتوں کے نظام کا ہوتا ہے۔

منصفانہ اور شفاف حکمرانی کے نظام کو سمجھنے کے لیے چند بنیادی عوامل اہم ہوتے ہیں ان میں وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مختص کرنا، جوابدہی کا موثر اور شفاف نظام، نگرانی کا موثر عمل، اداروں کی بالادستی اور شفافیت کا عمل، سیاسی مداخلتوں سے گریز انتظامی نظام، اداروں تک عام طبقہ کی باآسانی رسائی، فوری انصاف، بنیادی حقوق کی ضمانتیں، مقامی نظام اور عوام کے درمیان اعتماد سازی، شہریوں کی مقامی فیصلوں اور مختلف سرگرمیوں میں موثر شمولیت، مختلف فریقین میں مشاورت کا عمل، لوگوں میں مقامی سطح پر تحفظ کا احساس جیسے امور ہوتے ہیں۔ یہ ہی وہ نظام کی بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں جو حکمرانی کے نظام میں عام لوگوں اور حکومتوں کے درمیان اعتماد اورنظام کی ساکھ کو بحال کرکے ایک اچھی حکمرانی کی بنیاد بنتے ہیں۔

پاکستان میں کیونکہ تین سطح پر حکمرانی کا نظام موجود ہے۔ اول وفاقی، دوئم صوبائی اور سوئم مقامی نظام حکومت ہوتا ہے۔ جمہوریت کے نظام میں بنیادی طور پر سب سے زیادہ اہمیت مقامی نظام حکومت کی ہوتی ہے۔ 1973 کے دستور کی شق 140۔ Aکے تحت صوبائی حکومتیں عملاً پابند ہیں کہ وہ ضلعی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اورمالی اختیارات دے کر اس نظام کو مضبوط موثر اور شفاف بنائیں۔ لیکن کیونکہ ہم اچھی حکمرانی کے نظام کے حامی نہیں تو ہمیں اپنے یہاں حکمرانی کے نظام کا بحران نظر آتا ہے۔

اگر ہمیں پاکستان کے تناظر میں جمہوریت کے معیارات کو سمجھنا یا پرکھنا ہے تو ہمیں مرکزی یا صوبائی حکومتوں سے زیادہ مقامی حکومتوں کی صورتحال کو جانچنا ہوگا کہ وہ کیاہیں اورکیا وہ واقعی جمہوری حق کی ترجمانی کرتی ہیں۔ کیونکہ مقامی نظام حکومت کو مضبوط اور فعال کیے بغیر جمہوریت کا عمل کبھی بھی مکمل نہیں ہوسکتا۔

کراچی، لاہور جیسے بڑے شہروں سمیت دیگر چھوٹے شہر جو آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے حکمرانی کے بڑے بحران سے گزر رہے ہیں اس کا ہمیں حقیقی طور پر درست تجزیہ کرنا چاہیے۔ ان بڑے شہروں کا علاج روایتی نظام نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں جدیدیت بھی پیدا کرنا ہوگی اورزیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو با اختیارکرنا ہوگا۔ ہمارے بڑے بڑے سکہ بند دانشور اور سیاسی قیادت جو با ربار جمہوریت کی بے بسی کا رونا روتے ہیں اور وفاق پر صوبائی خود مختاری کو سلب کرنے کے الزامات لگاتے ہیں وہ ان صوبائی حکومتوں کا ماتم کرنے کے لیے تیار نہیں جو عملی طور پر ضلعی سطح پر لوگوں کو با اختیار بنانے کے لیے تیار نہیں۔ دراصل ہماری سیاسی قیادت تضادات اور دوعملی کا شکار ہوکر وہ خود جمہوری عمل میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہوتے ہیں۔

منصفانہ اور شفاف حکمرانی کے نظام میں اصل مسائل ترجیحات کے ہوتے ہیں۔ حکومتوں کو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ اس کی اصل ترجیحات کیا ہیں اورکن مسائل کو وہ بنیاد بنا کر کام کریں گے۔ اسی طرح یہ بھی طے کرنا ہوتا ہے کہ اپنی ترجیحات میں یہ طے کریں کہ وہ کن لوگوں کو اپنی بڑی ترجیحات کا حصہ بنائیں گے۔ عمومی طور پر مضبوط حکمرانی کے نظام میں محروم طبقوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے تاکہ ان پر زیادہ توجہ دے کر ان کمزور طبقوں کو زیادہ باآختیار بنایا جائے۔ لیکن ہمارے حکمرانی کے نظام میں سب سے زیادہ استحصال ہی کمزور طبقات کا ہوتا ہے اور ان کو ہی حکومتوں کی سیاسی، سماجی او رمعاشی پالیسیوں میں بڑے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس لیے جب ہم حکمرانی کے نظام کا تجزیہ کرتے ہوئے مسائل کا رونا روتے ہیں تو ہمیں حقیقت پسندی سے اس بات کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے کہ ہم ان مسائل سے نمٹنے کا کیا حل دے رہے ہیں یا رکھتے ہیں۔ ہمیں کسی بڑی پریشانی میں مبتلا ہونے کی بجائے بہت آسان انداز میں دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے کہ انہوں نے اپنے حکمرانی کے نظام کی کیسے اصلا ح کی۔ کیونکہ آج کی گلوبل دنیا میں ہمیں حکمرانی کے نظام میں ایک دوسرے کے بہتر تجربات سے سبق سیکھ کرآگے بڑھنا چاہیے۔ وہ لوگ جو پاکستان کی حکمرانی کے نظام پر گہری نظر رکھتے ہیں اوران کے پاس روایتی فکر کی بجائے متبادل ٹھوس تجاویز بھی ہیں ان جیسے اہل ددانش اور تھنک ٹینک سے فائدہ اٹھا کر ہمیں اپنی حکمرانی کے نظام کی بہتر اصلاح کرنی چاہیے۔

اسی طرح ہمیں اپنی حکمرانی کے نظام اور انتظامی بنیادوں پر ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ موجودہ بیوروکریسی کا نظام بار بار کی بڑ ی سیاسی مداخلتوں اوراقربا پروری کی بنیاد پر اپنی افادیت کھوبیٹھا ہے۔ مسائل کے حل میں جہاں سیاسی قیادتیں ذمہ دار ہیں وہیں ہماری بیوروکریسی کو بھی ذمہ دار سمجھنا ہوگا۔ کیونکہ اختیارات کی تقسیم میں جہاں سیاسی قیادتیں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں وہیں ایک بڑی مزاحمت یا رکاوٹ موجودہ بیوروکریسی بھی ہے جو زیادہ سے زیادہ اختیارات کو خود کنٹرول کرکے نظام کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ بیوروکریسی کو بے اختیار کردیا جائے بلکہ اصل مسئلہ فریقین میں ایک توازن پیدا کرے نظام کو سب کے لیے قابل قبول بنانا ہوگا۔

نظام کی اصلاح میں محض اچھی نیت یا خواہش کا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے نظام کو بہتر بنانے کے لیے صلاحیت اور ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ جو عملی اقدامات میں جھلکتی ہو وہ بہت ضروری امر ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر خواہش کا عمل محض خواہش ہی رہے تو اس کے نتائج بھی منفی ہی ہوتے ہیں۔ یہاں حکمرانی کے نظام کو موثر بنانے میں ایک بڑا کردار اہل دانش اور سول سوسائٹی سے جڑ ے افراد کا ہوتا ہے۔ یہ موثر گروہ بنیادی طور پر ریاست، حکومت اور طاقت ور طبقات جو فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں بڑا دباؤ ڈال کر نظا م کی درستگی میں اپنا موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں حکمرانی کے نظام سے جڑے تمام فریقین سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس نظام کی اصلاح میں ہمیں کیا بڑے اقدامات اٹھانے ہیں۔ حکمرانی کا بحران غیر معمولی بحران ہے اوراس سے نمٹنے کے لیے اقدامات بھی غیر معمولی اور کڑوی گولیوں کی صورت میں ہوں گے۔ اس بڑی سرجری یا آپریشن کے بغیر حکمرانی کا نظام موثر نہیں ہوسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).