جاوید چوہدری کا انتقام


سنہ یاد نہیں لیکن ابھی چند سال پہلے ہی کی بات ہے کہ جاوید چوہدری صاحب نے اپنے کچھ ٹاک شوز اور کالموں میں تحریک انصاف پہ تنقید کی۔ سوشل میڈیا پہ سرگرم تحریک انصاف کے حامیوں نے ان کے خلاف ”لفافہ صحافی“ اور ”بکاؤ مال“ ایسے الزامات کا ایک منظم سلسلہ شروع کر دیا۔ جاوید چوہدری بھی شاید پرسنل لے گئے یا کوئی اور ناخوشگوار واقعہ ہوا کہ انہوں نے جواب الجواب کے طور پہ تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے حامیوں کے منفی رویے پہ تسلسل کے ساتھ لکھنا بولنا شروع کر دیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ عمران خان اور دیگر قیادت بھی اپنے حامیوں کو شائستگی کا درس دینے کی بجائے مزید شہ دیتی ہے۔ مزید دو آتشہ یہ کہ انہوں نے پیپلزپارٹی، ن لیگ و دیگر جماعتوں کو سراہا بھی کہ کم از کم ان کی قیادت شائستگی، متانت اور بردباری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ان کے حامیوں کی جانب سے کسی کو نشانہ بنایا بھی جائے تو وہ نا صرف انہیں روکتے ہیں بلکہ متاثرہ افراد سے معذرت بھی کرتے ہیں۔

دوسری جانب خود پہ اور اپنی قیادت پہ تنقید اور مخالفین کی تعریف نے تبدیلی رضاکاروں کو مزید مشتعل کیا۔ بات گالم گلوچ اور ذاتی حملوں تک جا پہنچی۔ جاوید چوہدری کا موبائل فون نمبر لیک ہوا (یا کروایا گیا) اور انصافیوں نے ان کے ذاتی نمبروں پہ شب و روز گالیوں اور الزامات سے بھرپور ٹیکسٹ اور کالز کی بھرمار کر دی۔

انہی دنوں جاوید چوہدری نے ایک اور کالم لکھا۔ جس میں ان حالات کا ذکر کیا اور یہ بھی لکھا کہ ان کا سمجھ کر جن فون نمبروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ درحقیقت ان کے نمبر نہیں۔ کالم کے آخر میں انہوں نے سنجیدہ رنجیدہ اور دکھ بھرے انداز میں لکھا کہ اگرچہ یہ ایک معیوب بات ہے پھر بھی اگر کسی کو مجھے گالیاں دینے کا اتنا شوق ہے تو ان کی بجائے کسی اور شریف انسان کو ذلیل نا کیا جائے اور ان کا موبائل نمبر درج ذیل ہے۔ نیچے ایک موبائل نیٹ ورک کا نمبر دیا گیا تھا۔

اتفاق سے میں ان دنوں اسی موبائل نیٹ ورک میں کام کرتا تھا۔ غیر ضروری طور پہ کسی کا ڈیٹا ایکسس کرنا اگرچہ غیر اخلاقی حرکت تھی لیکن ایک تو تجسس بہت ہوا دوسرا اس دور میں خاکسار بھی قافلہ انقلاب کا راہی تھا سو مجھ پہ سجتا بھی تھا۔ میں نے سسٹم میں لاگ ان کر کے اس نمبر کا ڈیٹا چیک کیا تو کیا دیکھا کہ وہ نمبر عمران احمد خان نیازی کے نام پہ تھا۔ بے اختیار میرا قہقہ بلند ہو گیا۔

اب آپ سے کیا پردہ کہ اس وقت میں نے جاوید چوہدری صاحب کو ہی قصوروار سمجھا کہ انہوں نے ایک قومی سطح کے رہنما کا نمبر ایک ملک گیر اخبار کے کالم میں دے دیا ہے۔ پاکستانی صحافت کی تاریخ میں بھی یہ ایک انوکھا واقعہ ہوگا۔ لیکن اس واقعے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ آپ ایک صحافی ہیں۔ آپ (صحیح یا غلط) کسی سیاسی جماعت یا رہنما پہ تنقید کرتے ہیں اور محاورتاً نہیں حقیقتاً لاکھوں لوگ آپ کے ذاتی فون پہ گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں تو آپ پہ کیا گزرتی ہو گی؟

ویسے آج بھی یہ واقعہ یاد آئے تو ہنستا ہوں کہ نجانے کتنا عرصہ جذباتی انصافی دوست عمران خان کے نمبر پہ بھی جاوید چوہدری سمجھ کے ”محبت نامے“ بھیجتے رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).