عورت ذات کے تضادات


ہمارے ہاں ہمیشہ عورت کو مظلوم دکھایا جاتا ہے، کوئی ڈرامہ کوئی فلم کوئی سوپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس میں موجود بھولی بھالی ہیروئین کو ہر قسط میں کم از کم دو تین بار ذلیل کرنے، نیچا دکھانے، طعنے دینے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ خدا جانے لوگ ہمہ وقت تر آنکھوں کے ساتھ ٹسویے بہاتی ہیروئنز کو پسند کیسے کر لیتے ہیں۔ ہماری عام عورت بھی اس قدر ہوشیار واقع ہوئی ہے کہ انفوٹینمنٹ اور انٹرٹینمنٹ کے ذرائع سے استفادہ کر کے اپنی زندگیوں میں اداکاری کے ایسے ایسے رنگ بھرتی ہیں کہ ہر سننے والا ہردیکھنے والا مضطرب و بے تاب ہو جائے، لاجواب ہو جائے۔

ہمارے ہاں رواج بھی تو ایسا ہے کہ عورت کے معاملے میں ہمیشہ صورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سیرت کس بلا کا نام ہے کوئی جانتا ہی نہیں۔ نتیجتاً عام عورت نے بھی اپنے سیرت والے پوز کو غلاف بند کر کے کسی اونچے طاق پر رکھ چھوڑا ہے۔ اور خود کو جاذب نظر اور قابل قبول بنانے کی خاطر کاسمیٹک انڈسٹری کی چاندی کرا دی۔ حالانکہ ایمانداری سے دیکھا جائے تو عورت بذات خود اس قدر خوبصورت تخلیق ہے کہ اس کو اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات میک اپ کہ تہیں لگانے پر صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہمارے ہاں گلیوں، بازاروں، یورنیورسٹی، کالجوں حتیٰ کہ سکول اور مدرسوں میں نظر آنے والی خاتون نے جیسے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا ہے کہ ماتھے پر لکھائے پھرنا ہے ”میری جانب دیکھو، ہاں میں عورت ہوں، دیکھنے سے تعلق رکھتی ہوں۔“ کوئی پاس سے گزرتے گھورتا ہے یا سبحان اللہ، ماشاءاللہ کی گردان جھپے تو منہ پر مصنوعی غصہ سجا لیتی ہے مگر دل ہی دل میں پھولے نہیں سماتی، دیکھا جو دیکھتا ہے دیکھتا ہی چلا جاتا ہے۔ مسئلہ کسی مرد کا دیکھنا نہیں ہے۔ مردوں کو دیکھنے پر مجبور کرنے کے لیے ہی تو آئینے کے سامنے گھنٹوں کھڑی رہتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مرد ویسے دیکھیں جیسے وہ عورت چاہتی ہے۔ مرد اتنا دیکھے جتنا وہ عورت چاہتی ہے۔ تنازعہ ہمیشہ وہاں جنم لیتا ہے جب مرد عورت کی دل ہی دل میں طے کی گئی لمٹ کراس کرتا ہے، وگرنہ سب اچھا ہے۔

عورت ماں بن جائے تو ممتا کے اس عظیم درجے پر فائز ہو جاتی ہے جس کو لفظوں میں تولنا ممکن نہیں مگر گستاخی معاف! ماں بنتے ہی عورت جہاں شفقت کے اک اتھاہ سمندر میں بدل جاتی ہے وہیں اس سمندر کو چاروں اور سے خود غرضی اور مفاد پرستی کا ساحل آن لگتا ہے۔ عورت اولاد کے معاملے میں اس قدر خود غرض ہوتی ہے کہ باپ تک کو بچوں سے اک مخصوص دوری پر کھڑا کر دیتی ہے۔ عورت یہ تک برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کے خاوند اور بچوں کے بیچ اس قدر دوستانہ تعلقات پیدا ہوں کہ خود اس کی حیثیت ثانوی ہو جائے۔

اس لیے خواتین دانستہ یا نادانستہ والد کا بچوں پر عجیب دبدبہ رکھتی ہے۔ ہر شرارت پر تنبیہ کرتی ہے ”بابا آ جائیں تو ان کو بتاؤں گی۔“ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اولاد بچپن میں عموماً والد کو جلاد اور جوانی میں مظلوم سمجھتی رہتی ہے مگر کمیونیکیشن گیپ کا کیا کیا جائے؟ اس قدر دوستی تو ہو ہی نہیں پاتی کہ دونوں طرف سے کھل کر بات کرنے کی ہمت کی جائے۔ اکثر خواتین رٹو طوطے کی طرح اپنے خاوند اور سسرال کے مظالم یوں دہراتی رہتی ہیں کہ اولاد کے ذہنوں میں نقش ہو جائیں اور بچے کبھی ماں کے پروں میں سے نکل کر ادھر ادھر بھٹکنے کی زحمت نہ کریں۔

یہ سلسلہ محض شوہر تک موقوف نہیں، بیٹا جوان ہو جائے، بیاہا جائے، ماں تب بھی اس کو اس کی بیوی سے بانٹنے کا حوصلہ بڑی مشکل سے پیدا کرتی ہے۔ بیٹا والدین کے ساتھ رہے یا الگ ہمیشہ ماں کی توجہ رہتی ہے وہ کتنا کماتا ہے؟ والدین کو کتنا دیتا ہے؟ بیوی پر کس قدر ضائع کرتا ہے، اللے تللوں کا کیا حساب کتاب ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جانتی ہوں اس تحریر پر بہت سے اعتراضات اٹھائے جائیں گے، خواتین سینہ پیٹ کر کہیں گی ہم تو ایسی نہیں ہیں! جناب من، میں پانچوں انگلیوں کو برابر کہنے کی کوتاہی کر بھی نہیں رہی اس کے باوجود کسی بھی قسم کی دل آزاری کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔

خاوند کی دوسری شادی والی مثال ہی لے لیتے ہیں، تمام عورتیں اس معاملے میں اس قدر خائف ہوتی ہیں کہ شوہر کو مذاق میں بھی دوسری شادی کا ذکر نہیں کرنے دیتیں۔ اس میں ان عورتوں کو بھی شامل سمجھیے جن کی اپنے خاوند سے کبھی نہیں بنی۔ صبح شام ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق جھولی اٹھا اٹھا کر اپنے شوہر کو بد دعائیں دیتی ہیں مگر دوسری شادی کے نام پر واویلا اور شدید کر دیتی ہیں، ایسا کیوں ہے؟ میرا تعلق جٹ فیملی سے ہے ہمارے ہاں ڈیرا سسٹم چلتا ہے جہاں مردوں کے کام کاج کے لیے رکھی گئی عورتوں سے مراسم عام سی بات ہے۔

گھریلو خواتین جانتی ہیں ان کے شوہروں کے دوسری خواتین سے تعلقات ہیں، وہ ان پر روپیہ پیسہ لٹاتے ہیں مگر وہ کمال صبر سے برداشت کریں گی۔ تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر خاموش رہیں گی مگر جونہی شوہر ان میں سے کسی سے شادی کر کے جائز رشتہ بنانے کی بات کرے گا تو یوں سیخ پا ہوں گی کہ آسمان سر پر اٹھا لیں گی۔ ایسا کیوں ہے؟ خدارا یہ جواب نہ دیجیے کہ اس کا سبب محبت ہے۔ محبت ہو تو تعلقات کی شراکت پر خاموشی کیوں؟ کوئی مانے یا نہ مانے بظاہر صبر، مصلحت پسندی ہے۔ عورت اپنے شوہر کو اس قدر زچ نہیں کرنا چاہتی کہ وہ ضد میں آ کر شادی تک جائے اس طرح وہ خواتین ان کے شوہروں کے مستقل ذمہ داری بن جائیں گی، اور پھر ان سے ہونے والے بچے ان کی اولاد کے ساتھ برابری کی سطح پر وراثت بانٹے، یہ سہنے کا جگرا کوئی عورت کہاں سے لائے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).