بین الافغان مذاکرات کا بھاری پتھر


طالبان وفد کی وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کی تصویر دیکھ کر ہم، پاکستانی، جس کیفیت میں مبتلا ہوسکتے ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے Déjà vu سے بہتر کوئی لفظ نہیں۔ یہ سب کچھ کیا پہلے بھی ہو چکا ہے؟ یہ امن کی، مذاکرات کی باتیں پہلے بھی کبھی ہوئی ہیں۔ کہاں؟ یہیں اسلام آباد میں۔ کن کے مابین؟ انہی فریقین کے مابین۔ یہ سب کچھ بہت جانا پہچانا لگتا ہے۔

ہمارے محترم وزیراعظم اور فیصلہ ساز جانے کس بھرتے پراتنے اعتماد کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کے بارے میں دعوے کر رہے ہیں۔ ماضی کی صورتحال سے تو نہیں لگتا کہ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد بین الافغان مذاکرات کی بیل کسی منڈھے چڑھے گی۔ بین الافغان مذاکرات وہ بھاری پتھر ہے جسے جنرل ضیاء اور جنرل اختر جیسے ”افغانوں کے ہمدرد“ نہیں اٹھا سکے اوراب تو پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا۔ اب افغانستان میں موجود ہر گروہ، بشمول طالبان، کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے، مذاکراتی میز پر بٹھا کر کوئی قابل عمل حل کھوجنا ہرگز آسان نہیں۔ مذاکراتی میز پر بیٹھے افغانوں پر ”پاکستان کے اثر و رسوخ“ کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کریں۔

روس افغانستان میں مداخلت کی بھاری قیمت چکا کر وہاں سے نکلنے کے لیے بے چین تھا۔ سوویت انخلا کے لیے جنیوا معاہدے کا متن تیار تھا لیکن جنرل ضیاء اس پر دستخط میں پس و پیش کر رہے تھے۔ وہ روسی انخلا سے قبل افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے خواہش مند تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ اتنے بے چین تھے کہ انہوں نے اسلام آباد میں آئے سوویت ایلچی کو، جو جنیوا معاہدے کے تحت روسی انخلا کی مدت میں مزید دو ماہ کی کمی کا پیغام لایا تھا، بالکل الٹ پیشکش کر دی۔ انہوں نے درخواست کی کہ سوویت فوجیں افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے تک واپس نہ جائیں اور جنرل ضیاء خود عوامی سطح پراس کی درخواست کریں گے۔ سوویت ایلچی نے جنرل ضیاء کی تجویز ماسکو لے جانے کے لیے دو شرائط رکھیں :

1۔ صدر ضیاء مجاہدین رہنماؤں کو ڈاکٹر نجیب اللہ سے بات چیت پر آمادہ کریں گے
2۔ اگر مقررہ مدت میں یہ کوشش بار آور نہ ہوئی تو پاکستان جنیوا معاہدے پر دستخط کر دے گا

بعد ازاں جنرل ضیاء کو اپنی خواہش کے برعکس بادل نخواستہ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنا پڑے کیوں کہ وہ مجاہدین کو ڈاکٹر نجیب کے ساتھ مذاکراتی میز پر بٹھانے کا بھاری پتھر اٹھانے میں ناکام رہے۔ جنرل ضیاء سے لے کر نواز شریف تک پاکستان کے تمام وزرائے اعظم یہ کاوشیں کرتے رہے ہیں اور آج تک کسی کو کامیابی نہیں ملی۔

کسی کو جنرل ضیاء سے ہزاراختلاف ہو سکتے ہیں لیکن اس بات کی نفی اس کے کٹر ترین مخالفین بھی نہیں کر سکتے کہ افغانستان میں روس کے خلاف جاری جنگ کے دوران انہیں افغان جنگجوؤں پر جتنا اثر و رسوخ حاصل تھا دوسرے پاکستانی حکمرانوں کو اس کا عشر عشیر بھی نصیب نہیں ہوا۔ جب جنرل ضیاء جیسا حکمران مجاہدین کو نجیب اللہ سے مذاکرات پر راضی نہ کر سکا تو عمران خان (اور ہمارے آج کے ”حقیقی حکمران“ ) یہ بھاری پتھر کیسے اٹھائیں گے؟

جنگ لڑتے افغانوں پر پاکستانی کنٹرول کا دعویٰ تو اس دلیل کے ساتھ تسلم کیا جا سکتا ہے کہ ان جنگجوؤں کو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک نے اپنا کندھا پیش نہیں کیا۔ لیکن مذاکرات کی میز پر ان کا رویہ بالکل ہی الٹ جاتا ہے۔ نواز شریف کے پہلے دوراقتدارمیں، 1991 میں، جس شام سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے، روس کے نائب صدر پاکستان پہنچے۔ ان کے دورے کا مقصد دوران جنگ اپنی جان بچانے کے احسان کا بدلہ چکانا تھا۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان سے درخواست کی کہ اگر وہ افغان مجاہدین پر اپنا ”اثر و رسوخ“ استعمال کر کے کچھ روسی جنگی قیدی رہا کرا دیں تو اس سے پاک روس تعلقات کا ایک نیا در وا ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ روس پاکستان کو جدید اسلحہ بھی فراہم کرنے پر تیار ہو سکتا ہے۔

نواز شریف کی ہدایت پر آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ اسد درانی اور ماسکو میں پاکستانی سفیر ساری رات گلبدین حکمت یار اور استاد ربانی سے ”مذاکرات“ کرتے رہے لیکن بے سود۔ یہ نہیں کہ ان کمانڈروں کے پاس روسی قیدی نہیں تھے دراصل یہ لوگ خود ان قیدیوں کے تبادلے کے فوائد سمیٹنے کے خواہشمند تھے۔ ایک سال بعد جب استاد ربانی احمد شاہ مسعود کے زیر قبضہ کابل میں صدر تھے تو انہوں نے کئی روسی قیدی ماسکو کے حوالے کیے۔

پاکستان کے ساتھ یہ سلوک ان مجاہدین رہنماؤں نے کیا تھا جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ یہ پاکستان کے بہت ”لاڈلے“ تھے۔ اور پاکستان نے ان کی مدد کے لیے جو کچھ کیا تھا اسے بیان کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔

بین الافغان مذاکرات کی دلدل میں وہ لوگ بھی خوار ہوئے جن کے خیال میں انہوں نے افغانوں کو دور ابتلا میں کھلے بازوؤں کے ساتھ گلے لگایا تھا اور ان کے ان رہنماؤں کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے اب ان کا انجام بھی ملاحظہ فرما لیں۔

ڈاکٹر نجیب کی حکومت آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے لیے کوششیں ایک بار پھر جاری تھیں۔ یہ بات نوشتہ دیوار تھی کہ اگر مجاہدین کسی وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر راضی نہ ہوئے تو اس کا انجام بھیانک خانہ جنگی ہوگا، اور ایسا ہی ہوا۔ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد، صاحب نواز حکومت ( 1990۔ 93 ) کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے کہ وہ افغان مسئلے کو صحیح طور پر ہینڈل نہیں کر پا رہی۔

وزارت خارجہ نے استاد ربانی اور گلبدین حکمت یار کے نمائندے سے قاضی صاحب کی ملاقات کا بندوبست کیا۔ قاضی صاحب اس ملاقات کے بعد نہایت برہمی کے عالم میں یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ”کل یہ لوگ بے سرو سامانی کے عالم میں میرے دروازے پر آئے تھے اور آج میری بات ماننے سے انکاری ہیں۔“ (کل سے مراد ستر کی دہائی ہے جب استاد ربانی اور گلبدین اور مسعود وغیرہ افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آئے تھے۔)

اس مضمون میں بیان کیے گئے واقعات سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان کی 2013 میں چھپی کتاب ”افغانستان اور پاکستان“ سے لیے گئے ہیں جو القا پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).