تشدد اور رٹے کا کلچر بچوں کی شخصیت مسخ کر رہا ہے


9 رشتوں اور جذبات کی نفسیات

پچھلے مضمون میں ہم نے بات کی کہ چھوٹے بچے جہاں ایک طرف معلم یا مولوی صاحب جن سے پہلی دفعہ پڑھنا شروع کرتے ہیں اور جس کے ساتھ گھر کے علاوہ سب سے زیادہ وقت گزارتے ہیں ان سے بہت مضبوط جذباتی تعلق محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ تعلق بچوں کو بہت کمزور اور ولنرایبل مقام پہ لے آتا ہے۔ محبت اور احترام بچے کو بہت سی زیادتیاں ماننے اور برداشت کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔ یہ جسمانی نفسیاتی اور جنسی تشدد سب پہ مشتمل ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے آج کل ایک عمومی طور پہ اچھا معلم سمجھا جانے والا شخص بھی جسمانی اور نفسیاتی تشدد کو درست سمجھتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے اسکولوں میں تشدد کی ناصرف خبریں بلکہ وڈیوز بھی منظر عام پہ آرہی ہیں۔ اور یہ کوئی ہلکی پھلکی مار نہیں بلکہ وحشیانہ تشدد ہوتا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسکول و مدرسے کی انتظامیہ معلم چنتے وقت اس پہلو کو بالکل نظر انداز کردیتی ہے کہ وہ شخص کسی قسم کے پرتشدد یا جنسی نوعیت کے ذہنی مسئلے کا شکار نہ ہو وہیں پہ ایک اور رویہ اس مسئلے کو یہاں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔

اور وہ ہے احترام کے نام پہ والدین کا بطور والدین اپنی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا لینا اور بچے کی تمام ذمہ داری ایک اجنبی شخص یعنی معلم پہ ڈال دینا۔ یہ تشدد کا ماحول ایک دم سے نہیں بنا اسے صدیاں لگی ہیں۔ اسکول ایک طرف منافع بخش کاروبار بن گیا ہے تو دوسسری طرف والدین ایک لمبے عرصے سے اپنی ذمہ داری ”احترام“ کے نام پر معلم پہ ڈالتے آرہے ہیں۔ ایسے میں بچہ خطرناک حد تک معلم کے رحم و کرم پہ ہوتا ہے۔ آپ نے یقیناً وہ مشہورِ زمانہ اعلانیہ سنا ہوگا ”ہڈی ہماری کھال تمہاری“ کیوں؟

میرا بہت واضح سوال ہے والدین سے کہ جب آپ اولاد کی جذباتی جسمانی اور نفسیاتی ضروریات پوری نہیں کرسکتے تو پیدا کرنے سے پہلے ایک دفعہ سوچتے کیوں نہیں؟

جہاں ایک طرف سیکھنے اور سکھانے والے کے درمیان ایک قدرتی تعلق بننا چاہیے وہاں ہمارے معاشرے میں یہ تعلق معلم پہ بوجھ بن جاتا ہے اور یہ دو طرفہ بوجھ ہوتا ہے ایک طرف اسکول انتظامیہ ہوتی ہے جو کم سے کم خرچ میں سو فیصد نتیجہ چاہتی اور دوسری طرف ایسے والدین کی اکثریت ہے جو ناچاہتے ہوئے اولاد کی ذمہ داری اٹھانے پہ مجبور ہیں اور بچوں کے سامنے کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ ”انہوں نے ہمارا جینا حرام کیا ہواہے اسکول والے انہیں چھٹی ہی نا دیا کریں۔“

ایسے ماحول سے آنے والا بچہ خوش قسمتی سے دس پندرہ ٹیچرز میں سے کسی ایک یا دو کو والدین سے بہتر پاتا ہے اور جذباتی طور پہ ان کے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ یہاں پہ معلم کے پاس ایک اچھی اپرچیونٹی ہوتی ہے کہ وہ ذرا سی توجہ اور پیار سے بچے کے تمام مسائل کو کم کرنے میں معاون ہوسکتا ہے لیکن اس محنت سے زیادہ آسان ہمیں بچوں کو بدتمیز اور کام چور لیبل کرنا لگتا ہے۔ معلموں اور والدین کے درمیان تمام تعلیمی دور میں شکایتوں کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے اور کوئی بھی بچے کے مسئلے کو اپنی ذمہ داری سمجھ کے حل کرنا نہیں چاہتا۔

اسکول میں بچے بیک وقت کئی مسائل سے گزرتے ہیں جن کی علامات آپ ہونے والے واقعات میں دیکھ سکتے ہیں۔ اسکول عموماً جنسی معلومات سے آشنائی کی سب سے پہلی سیڑھی ہوتے ہیں۔ یہاں کے ٹوائلٹس بہت تاریک راز چھپائے ہوتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ اتنے مسائل کے باوجود کبھی کسی کو خیال نہیں آیا کہ اسکولوں میں ٹوائلٹ یا تو ہر کلاس کے الگ ہوں یا کم از کم ایسی جگہ ہوں جو بالکل ویران نہ ہو۔ ہر اسکول میں بچیاں یہ شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ ہم ٹوائلٹ جاتے ہیں تو وہاں کوئی ہوتا ہے یا جھانکتا ہے لیکن اس بات کو آسیب کا رنگ دے کر طرح دے دی جاتی ہے۔

جہاں ایک طرف طالب علم کے مسائل ہیں وہیں معلم کے اپنے الگ مسائل ہیں۔ عموماً اسکولوں میں انتظامیہ کی طرف سے اتنی گنجائش ہی نہیں ملتی کہ معلم بچوں سے جذباتی تعلق بنائے اور ان کے قریب ہوکے ان کے مسائل سمجھ سکے۔ اسے سرے سے پتا ہی نہیں ہوتا کہ لرننگ ڈس اورڈر نام کے کوئی مسئلے بھی ہوتے ہیں۔ انتظامیہ کا سارا زور ایک مخصوص تعداد کو پاس کروانے پہ ہوتا ہے۔ اس نے کیا سیکھا کیا سہہ کے سیکھا اور معلم نے کن مسائل کا سامنا کرکے بچوں کو اس قابل بنایا کہ وہ پاس ہوسکیں اس سے انتظامیہ کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کی توجہ فیس کی مکمل کلیکشن پہ ہوتی ہے اور ہر اس مسئلے پہ جو فیس کی کلیکشن پہ اثر کرے۔ چھوٹے چھوٹے بچے فیس نا دے پانے کی وجہ سے ”ڈفالٹر“ کہہ کے بلائے جاتے ہیں۔

معلموں کی اکثریت اگر بچوں سے محبت نہیں کرتی تو نفرت بھی نہیں کرتی لیکن انہیں اول تو تعلیم و تربیت کی اہم اصول سکھائے نہیں جاتے اور اگر سکھائے جاتے ہیں تو ان پہ عمل کرنے کا باقاعدہ موقع نہیں دیا جاتا۔ ایک طرف یہ فرمائش کہ بچے جدید طریقے سے سیکھیں اور کلاس میں بحث و مباحثہ کے ذریعے ٹاپک سیکھیں اور ساتھ یہ سختی بھی کہ کلاس سے شور کی آواز نا آئے۔ سیکھنے میں مسائل رکھنے والے بچوں کے لیے ان سسٹمز میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ بچے والدین، انتظامیہ، معلم اور ساتھی شاگردوں کی طرف سے دن میں کئی بار لعن طعن سہتے ہیں۔

سرکاری اسکولوں کا حال اور برا ہے کہ وہاں نہ معیاری اساتذہ ہیں نہ معیاری نصاب اور عمارت۔ کتاب پڑھا کے استاد خود ہی جواب بتا دیتا ہے تاکہ جلدی جلدی متعین سلیبس مکمل ہو بدقسمتی سے یہ چلن بہت سے نجی اور معیاری کہلانے والے اسکولوں میں بھی ہے۔ اسکولو‌ں میں بچوں کو کم عمری سے صنفی اور مذہبی فرق سکھایا جاتا ہے۔ جو طلباء میں آپس میں نفرت بڑھانے کی وجہ بنتا ہے۔

محترم قارئین ”کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں“ والا معاملہ ہے۔ اسکول سسٹم کے اپنے سنجیدہ مسائل ہیں لیکن نتیجہ یہ ہے کہ معلم اور شاگرد کا ایک خوبصورت اور آفاقی رشتہ منافع سازی کی نظر ہورہا ہے۔ جس پہ توجہ دینے کی ازحد ضرورت ہے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima