پاکستان میں کشمیر کی خودمختاری کی بات کون کرتا ہے؟


انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے اور وہاں جاری سکیورٹی لاک ڈاؤن کو ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ان پابندیوں کے نفاذ کے بعد سے ہی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی اس اقدام کے خلاف مظاہرے اور جلسے جاری ہیں۔

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان بھی مظفرآباد میں ایک ایسے ہی جلسے میں خطاب کر چکے ہیں جہاں ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعروں کی گونج میں ان کی تقریر سن کر یہی تاثر ملا کہ کشمیری پاکستان سے الحاق کے حامی ہیں۔

لیکن زمینی حقائق اتنے سادہ نہیں اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورتحال پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاج کرنے والے کشمیریوں میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو پاکستان اور انڈیا دونوں سے علیحدگی چاہتے ہوئے ایک آزاد کشمیری ریاست کی بات کرتے ہیں۔

ان کا تعلق 12 سے زائد علیحدگی پسند جماعتوں سے ہے اور کئی برسوں میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں آزادی پسند جماعتوں نے کشمیر کی خود مختاری اور انڈیا اور پاکستان سے آزادی کی خاطر کھل کر احتجاج کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: مودی اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر نہیں کریں گے

لائن آف کنٹرول پر دھرنا کیوں جاری ہے؟

کشمیر کی آزادی کے لیے احتجاجی دھرنے

’ہم آنے والی نسلوں کو جنگ ورثے میں نہیں دینا چاہتے‘

کشمیر: پاکستان اور انڈیا اپنے اپنے بیانیے کے اسیر

اسی احتجاج کے دوران کنٹرول لائن کی جانب مارچ بھی ہوا جسے سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی اور پھر وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ کنٹرول لائن عبور کرنے کے لیے ان کے اشارے کا انتظار کریں۔

چند دن بعد عمران خان یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ’جو بھی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جہاد کے لیے جائے گا وہ کشمیریوں کو نقصان پہنچائے گا۔‘

یہ مطالبات اب کیوں کیے جارہے ہیں؟

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم سیاسی و قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں سے جب اس بارے میں بات کی گئی تو ان میں سے زیادہ تر کا یہی کہنا تھا کہ آزادی کی بات کئی دہائیوں سے کی جارہی ہے۔

حال ہی میں مظفرآباد میں تیتری نوٹ کے مقام پر ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے والے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدر کامران بیگ کا کہنا تھا کہ ’خودمختار کشمیر کی جو بات ہے وہ ماضی میں اس سے بھی زیادہ مضبوط تھی لیکن یہ آوازیں یہیں گونج گونج کر ختم ہو جاتی تھیں، کیونکہ ہمارے پاس ایسے وسائل نہیں تھے جو آج ہیں۔‘

جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام 1966 میں ہوا۔ دیگر جماعتوں میں ان کا شمار قوم پرست جماعتوں کی نرسری کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ جماعت تعلیمی اداروں میں طلبہ کے حقوق کے لیے جبکہ دوسری جانب کشمیر کی خود مختاری کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہے۔

این ایس ایف کے صدر یاسر یونس کی سربراہی میں کئی احتجاجی مارچ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پاکستان کی ریاست کے خلاف بھی کیے گئے ہیں۔ یہ جماعتیں کہتی ہیں کہ ان کی سرگرمیاں اس لیے سامنے نہیں آتیں کیونکہ پاکستانی میڈیا ان کو کوریج نہیں دیتا۔

ان جماعتوں کے مطالبات و الزامات کیا؟

اس وقت پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاسی الائنس کے تحت 14 قوم پرست جماعتیں ہیں جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری بربریت کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔

ان ہی میں 12 سے زائد جماعتوں کا اتحاد حال ہی میں پیپلز نیشنل الائنس کے تحت ہوا جن کا مقصد کشمیر کی مکمل آزادی سے منسلک ہے اور یہ اتحادی جماعتیں الحاق کی باتیں کرنے والے جماعتوں کے سخت خلاف ہیں۔

این ایس ایف کے کامران بیگ کہتے ہیں کہ ’ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان اگر ہماری وکالت چھوڑ کر سفارتکاری کرنا چاہتا ہے تو ہماری حکومت کو اختیار دے۔ میرے وزیرِ اعظم کو اختیارات دے دیں، میری قانون ساز اسمبلی کو بااختیار کردیں۔ اگر یہ اختیارات ہمیں دے دیے جائیں تو مجھے کیا دشمنی ہے پاکستان سے؟ مجھے تو کوئی دشمنی نہیں ہے۔‘

یہ جماعتیں پاکستان پر الزام لگاتی ہیں کہ رواں برس کے آغاز ہی سے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ اس کریک ڈاؤن کی وجہ اسلام آباد سے 80 کلومیٹر دور کوٹلی کے مقام پر ہونے والے امن مارچ کو بتایا جاتا ہے۔

جس میں قوم پرست اور علیحدگی پسند جماعتوں نے یکجا ہو کر پاکستان اور انڈیا کو کشمیر پر قابض قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔ جس کے نتیجے میں ان جماعتوں خصوصاً جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے 19 ارکان کو گرفتار کیا گیا اور بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا۔

آزادی مارچ

یہ جماعتیں پاکستان پر الزام لگاتی ہیں کہ رواں برس کے آغاز ہی سے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ اس کریک ڈاؤن کی وجہ اسلام آباد سے 80 کلومیٹر دور کوٹلی کے مقام پر ہونے والے امن مارچ کو بتایا جاتا ہے

قوم پرست جماعتیں اور جدوجہد آزادی

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد لندن میں امان اللہ خان اور مقبول بھٹ کی قیادت میں سنہ 1977 میں رکھی گئی۔ ان میں ایک دھڑا امان اللہ خان کو جبکہ کئی مقبول بھٹ کو جے کے ایل ایف کا بانی مانتے ہیں۔ اب اس جماعت کی سربراہی سری نگر سے یاسین ملک کر رہے ہیں۔

جے کے ایل ایف کے ارکان بتاتے ہیں کہ سنہ 1988 سے 1989 کے عرصے میں جب انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالات بگڑے تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے آنا شروع کیا۔ یہاں آنے والوں کو صرف یہ پتا تھا کہ سرحد کی دوسرے پار ایک آزاد ریاست ہے جہاں وہ رہ سکتے ہیں۔

جے کے ایل ایف کے سینیئر رہنما خواجہ سیف الدین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو ہمارے پاس محدود تعداد میں لوگ تھے، مجھے جماعت کا ساتواں رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لوگ یا تو لندن میں یا تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک چھوٹے سے حصے سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ لیکن 31 جولائی 1988 میں ہم نے عسکری جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کے بغیر ہماری آزادی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘

خواجہ سیف الدین کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کا مطالبہ تب بھی وہی تھا جو آج ہے۔

’ہم تب بھی کہتے تھے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان زمین کا تنازع نہیں ہے۔ یہ ہماری آزادی کی جنگ ہے۔ اب جب ہم یہ بات کر رہے ہیں تو وہی ریاست جو ایک وقت میں ہماری حامی تھی، آج ہمارے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کر رہی ہے۔‘

مقدمات بھگتنے والی جماعتوں میں ایک نام کشمیر نیشنل پارٹی کا بھی تھا۔ اس جماعت کا قیام سنہ 2007 میں ہوا۔ اس جماعت کا منشور ان کے ارکان کے بقول کشمیر کی ریاست سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد ایک آزاد ریاست کا قیام ہے۔

اس جماعت کے مطابق جب تک پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں موجود اسمبلی آئین ساز اسمبلی نہیں بنتی تب تک ’ہم دنیا کو اپنا مسئلہ بہتر انداز میں نہیں بتا سکتے۔‘

علیحدگی پسند جماعت کشمیر نیشنل پارٹی کے صدرافضال سلہریا نے کہا کہ ’ہمارے مطالبات لوگوں کے خیالات سے مختلف نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہماری آبادی کو چاہے وہ گلگت بلتستان میں ہے یا انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں، اس کو نہ بدلا جائے۔ پاکستان ایک طرف انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے پر تنقید تو کرتا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان میں یہی قدم انھوں نے 35 اے ختم کر کے کیا ہے۔‘

جے کے ایل ایف سے تعلق رکھنے والے پرویز مرزا اور دیگر قوم پرست اور علیحدگی پسند جماعتوں کے کارکنان کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے 33 فیصد اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے پانچ فیصد علاقے کو ایک حکومت بنا دیا جائے۔

’پاکستان ہمیں ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرے۔ اور اقوامِ متحدہ میں کشمیریوں کو اپنی نمائندگی خود کرنے دیں۔ جب پاکستان اور انڈیا کشمیریوں کو پیچھے کر کے خود ان کی نمائندگی کرتا ہے تو دنیا کو لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی زمین کے ٹکڑے کا تنازعہ ہے لہذا وہ اتنی دلچسپی نہیں لیتے۔‘

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت کیا کہتی ہے؟

مسعود خان

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے صدر سردار مسعود خان

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حال ہی میں ہونے والے احتجاج پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ایک نقط نظر ہے اور وہ اس کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ آزاد کشمیر کی بڑی بڑی جماعتیں پاکستان کے ساتھ جُڑی ہوئی ہیں۔ کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہاں قوّتِ برداشت بہت ہے اور لوگ ہر جگہ اپنا اظہارِ خیال کرسکتے ہیں۔‘

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اطلاعات مشتاق احمد منہاس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قوم پرست اور علیحدگی پسند جماعتوں کے تمام الزامات کی تردید کی۔

ان کا کہنا تھا ’یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آزاد کشمیر میں آزادیِ رائے کے لیے کسی بھی حد تک حمایت دی جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ پاکستان کی بنیاد کو چیلنج کریں گے، افواجِ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کریں گے تو قانون ضرور حرکت میں آئے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جتنی بھی قوم پرست اور علیحدگی پسند جماعتیں ہیں خواہ ان کا نظریہ مختلف ہی کیوں نہ ہو، ان کو بات کرنے کی مکمل اجازت ہے۔ اب تو سوشل میڈیا کا زمانہ اور چاہ کر بھی کسی کو چُپ نہیں کروایا جا سکتا۔

’یہ کوئی ایک قیدی بتا دیں جس کو گرفتار کیا گیا ہو یا ہراساں کیا گیا ہو یا زدوکوب کیا گیا ہو۔ میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایسے حالات نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو یا تو ہم بندہ اٹھاتے ہیں یا اس کا تعاقب کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا ہو تو یہ بتا دیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp