ایران سعودی عرب پر حملہ کرنے کا خطرہ کیوں مول لے گا؟


ایران

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُس کی تیل تنصیبات پر حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔

سعودی عرب نے عالمی برادری سے اس کے خلاف اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ایران اور سعودی عرب میں جنگ ہو سکتی ہے؟

تیل کی تنصیبات پر حملے میں ہونے والے نقصان سے یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب اس حملے سے روگردانی نہیں کر سکتا اور اس کی جانب سے ایران کو مجرم قرار دینے کا مطلب ہے کہ ریاض اب اس کا جواب دینے پر مجبور ہے۔

سعودی عرب ممکنہ طور پر تب تک انتظار کرے گا جب تک کہ اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک ٹیم اس واقعہ کی آزادانہ تحقیقات مکمل نہ کر لے۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب حملے: ہتھیاروں کے ملبے سے ثابت ہوتا ہے کہ حملوں کے پیچھے ایران ہے‘

کیا سعودی عرب اور ایران میں براہ راست جنگ ہو سکتی ہے؟

’ایران پر کسی بھی حملے کا مطلب کھلی جنگ ہو گا‘

اگرچہ ماہرین بھی اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ حملے ایران کی جانب سے فراہم کیے گئے مواد اور مدد کے بغیر ممکن نہیں تھے تاہم اس دوران سعودی عرب کو اپنے ردعمل کے حوالے سے سوچنے کا وقت ملے گا۔

بظاہر الزامات سے انکار کرنا ایران کے لیے مدد گار نہیں ہو گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے حتمی تعین کا انتظار کریں گے کہ حملوں کا ذمہ دار کون تھا

سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ جب سے ایران پر صدر ٹرمپ کی جانب سے معاشی پابندیاں دوبارہ عائد کی گئی ہیں، تہران امریکہ پر پابندیوں میں نرمی انے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔

ایران کے رہنماؤں کو امید ہے کہ خطے میں جنگ کا خطرہ عالمی طاقتوں کو یہ احساس دلائے کا کہ پابندیاں تباہی کا باعث بنتی ہیں۔

انھیں امید ہے کہ فرانس کے صدر ایمانیول میخوان کی جانب سے ایران کو اس کے جوہری معاہدے کی پاسداری کرنے اور خطے میں عدم استحکام لانے والی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے 15 بلین ڈالر ادھار دینے کا منصوبہ کامیاب ہو سکتا ہے۔

لیکن امریکی صدر نے اس منصوبے کی منظوری نہیں دی ہے۔

بدھ کو امریکی صدر نے اپنے وزیر خزانہ سے کہا ہے کہ وہ ایران پر معاشی پابندیاں بڑھا دیں۔ شاید اسی لیے ایران نے یہ سنگین اقدام اٹھایا۔

حسن روحانی

ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملہ میں ایران کے ملوث ہونے کے امریکی الزام کا مقصد ایران پر دباؤ بڑھانا ہے

یہ بات طے ہے اس پیمانے پر حملہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنی کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔

ان کی جانب سے اس ہفتے کیے گئے خطاب میں ایک مرتبہ بھی سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے یا خطے میں کسی بھی وقت جنگ چھڑنے کے خطرے کا ذکر نہیں کیا۔

بلکہ انھوں نے اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھر اس امکان کو رد کیا اور کہا کہ جب تک امریکہ کی جانب سے عائد پابندیاں برقرار ہیں تب تک ایران اور امریکی حکام میں کسی بھی سطح پر کوئی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

مگر کبھی نہ کبھی تو آیت اللہ خامنی کو اپنے موقف میں نرمی لانے اور امریکہ سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے کیونکہ ایران میں متعدد اعتدال پسند شخصیات خاموشی سے اس کی حمایت کر رہی ہیں۔

ایران کی تیل کی برآمدات تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اس کی معیشت سکڑ رہی ہے اور خیال ہے کہ اس کے نقدی کے ذخائر صرف اگلے چند ماہ کے لیے کافی ہے۔

اس کی کرنسی میں گراوٹ نے ملک میں مہنگائی کی شرح کو 40 فیصد تک بڑھا دیا ہے اور تقریباً آدھی آبادی کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے جو اپنی زندگی گزارنے کے لیے مشکلات کا شکار ہیں۔

ایران

ایران کی تیل کی برآمدات تقریباً ختم ہو چکی ہے اور خیال ہے کہ اس کے نقدی کے ذخائر صرف اگلے چند ماہ کے لیے کافی ہے

تو کیا ایسے میں سعودی عرب ایران کو پیچھے ہٹانے کے لیے کوئی عسکری کارروائی کرے گا؟ ریاض شاید دانستہ طور پر ایسا کرنے سے گریز کر رہا ہے۔

ایران کی آبادی 80 ملین ہے جو کہ سعودی عرب کی 33 ملین کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔

ایران کے پاس موجود ہزاروں میزائل سعودی عرب کی تیل تنصیبات، فوجی اڈوں اور آبادی کے لیے خطرہ ہیں۔

اس کے مقابلے میں سعودی عرب کے پاس سینکڑوں چینی ساخت کے میزائل اور میزائلوں سے بچاؤ کی محدود صلاحیت ہے۔

سعودی عرب کے پاس بھی تقریباً ایران جتنے ہی جنگی جہاز ہیں۔ لیکن اس کے جنگی جہاز جدید اور مؤثر جبکہ ایران کے پرانے اور ناقابل بھروسہ ہیں۔

ایران کے پاس خطے بھر میں پراکسیاں موجود ہیں اور سعودی عرب کی اقلیت شیعہ مسلم آبادی کی بھی اس کو حمایت حاصل ہے۔

سعودی عرب پہلے ہی ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے ساتھ یمن جنگ کے مہنگے محاذ میں مصروف ہے۔

لیکن اگر سعودی عرب کی ایران کے ساتھ براہ راست جنگ چھڑی تو یہ صرف فضائی طاقت اور میزائل صلاحیت کا مقابلہ ہوگا اور کوئی بھی ملک اس جنگ سے فاتح بن کر باہر نہیں نکلے گا۔

حالانکہ خلیج میں امریکی فوج، جنگی جہاز اور بحری جہاز تعینات ہیں لیکن امریکی صدر اس طویل چلنے والے تنازع میں شامل ہونے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔

امریکی بحری بیڑوں اور اڈوں کو ایران کی جانب سے میزائل حملہ کا خطرہ ہے۔ اور آبنائے ہرمز کے راستے سے دنیا کے تقریباً 20 فیصد تیل کی تجارت ہوتی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کو شاید امریکہ میں پیٹرول سٹیشنوں پر بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ان کی دوسری بار امریکی صدارتی انتخاب کے لیے کی جانے والی مہم پر پڑنے والے اثرات کی فکر ہے۔

سعودی عرب کے لیے امریکہ کی عسکری مدد انتہائی اہم ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ایران کے خلاف کارروائی کی قیادت کرے اور کسی بھی امریکی مدد کے لیے پیسے ادا کرے۔

سعودی عرب یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے علاقائی اتحادی، متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی ایران کے خلاف کارروائی کا حصہ بنیں۔

امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کی سیاسی اور سفارتی حمایت بھی شامل کرسکتا ہے۔

تاہم وہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے فیصلے کو اس جنگ کے چھڑنے کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

اسی اثنا میں ایران میں موجود سخت گیر حلقے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا ان کی حکمت عملی پابندیوں میں نرمی کے بجائے ان کے ملک کو جنگ اور تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp