عراق میں کُردوں کا قتلِ عام: ’میں نے اپنی والدہ اور بہنوں کو اپنی آنکھوں نے سامنے قتل ہوتے دیکھا‘
’میں نے اپنی والدہ کو اپنی آنکھوں نے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ میں ان کو بچا نہیں سکا۔ اس کے بعد میں نے اپنی دو بہنوں کو قتل ہوتے دیکھا۔’
تیمور عبداللہ احمد مئی 1988 کی اس شام کو یاد کر رہے ہیں جب ان سمیت درجنوں بچوں اور خواتین کو ایک صحرا میں لے جا کر ایک گڑھے میں دھکیل دیا گیا اور عراقی سپاہیوں نے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس وقت تیمور کی عمر 12 برس تھی۔
ان کا جرم یہ تھا کہ صدام حسین کے دورِ حکومت والے عراق میں وہ کُرد نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
‘اس قبر (گڑھے) میں میرا دل میری بہنوں اور والدہ کے ساتھ ہی مر گیا تھا۔’
یہ بھی پڑھیے
عراق اور کرد علاقوں میں 1500 بچے قید
جب 100 دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو قتل کیا گیا
عراق: جیل میں اجتماعی قبر سے 500 افراد کی باقیات برآمد
تیمور احمد اب 43 برس کے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ‘مجھے ماضی کی یاد آتی ہے۔ مجھے یہ یاد اس وقت آتی ہے جب میں سونے کے لیے لیٹتا ہوں۔’ احمد کو وہ مناظر یاد ہیں کہ کیسے ان کی والدہ اور دو بہنوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
ان کو یقین ہے کہ ان کی تیسری بہن کو ساتھ ہی کھدے ایک اور گڑھے میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
احمد اب مرنے والے افراد کے لیے انصاف کے متقاضی ہیں۔
یہ ہلاکتیں عراقی حکومت کی جانب سے شمال میں بسنے والے کُرد باشندوں کے خلاف چلائی گئی اس مہم کے دوران ہوئیں جس کا مقصد انھیں (کُردوں) اجتماعی سزا دینا تھا۔ اس مہم کا نام ‘انفال’ تھا۔
عراقی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کارروائی کا مقصد بغاوت کو کچلنا تھا۔ حکام کے مطابق سنہ 1980 سے 1988 دوران لڑی گئی ایران عراق جنگ میں کچھ کُرد باشندوں نے دشمنوں (ایران) کا ساتھ دیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ سے زائد افراد کا، جس میں زیادہ تر سویلین تھے، نسلی بنیادوں پر قتلِ عام کیا گیا۔ اور اس کام کے لیے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔ کُرد ذرائع کا دعوی ہے کہ 180000 سے زائد افراد کو قتل کیا گیا تھا۔
اس وقت (1988 میں) احمد اپنے والدین اور بہنوں کے ہمراہ کولاجو نامی ایک دور افتادہ گاؤں میں رہائش پذیر تھے۔ اس گاؤں کی کل آبادی 110 نفوس پر مشتمل تھی اور یہ تمام افراد آپس میں قرابت دار تھے۔
احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہمارے گاؤں کو تلاش کرنا کافی مشکل تھا۔’
تاہم ان کے مطابق وہ کُرد باشندے جو صدام حسین کی حکومت کے حامی تھے انھوں نے اپریل 1988 میں عراقی فورسز کو اس گاؤں کے بارے میں آگاہ کیا۔
گاؤں والوں کا محاصرہ کر لیا گیا اور انھیں وہاں سے ایک فوجی کیمپ لے جایا گیا۔ وہاں مردوں کو عورتوں اور بچوں سے علیحدہ کیا گیا۔ اس دن احمد نے آخری مرتبہ اپنے والد کو دیکھا تھا۔
ایک ماہ بعد احمد اور دوسرے افراد کو ایک ٹرک میں سوار کر کے ملک کے جنوبی حصے کی طرف لے جایا گیا۔
‘جب ٹرک کے دروازے کھولے گئے تو میں نے ایک دوسرے کے قریب کھدے تین الگ الگ گڑھے دیکھے۔ دو عراقی سپاہی اے کے 47 رائفلز سے مسلح تھے۔’
عورتوں اور بچوں کو ٹرک سے زبردستی نکال کر ان گڑھوں میں پھینکا جانے لگا۔ بعض بچے اپنی ماؤں کی گود میں تھے۔
‘اچانک ہی سپاہیوں نے ہم پر فائرنگ کرنا شروع کر دی۔’
ایک گولی احمد کے بائیں بازو پر لگی۔ انھوں نے بتایا کہ ‘گولیاں میرے سر، کندھوں اور ٹانگوں کے قریب چلائی جا رہی تھیں۔ ہمارے نیچے زمین میں ارتعاش تھا۔ ہر جگہ خون ہی خون تھا۔ دو گولیاں میری کمر میں لگیں۔ میں اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا۔’
معجزانہ طور پر احمد بچ گئے تھے مگر جب تک سپاہی واپس نہیں گئے وہ مر جانے کی اداکاری کرتے رہے۔ بعدازاں وہ لاشوں کے درمیان سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور رات کے وقت وہاں سے فرار ہو گئے۔
وہاں سے وہ ایک بدو خاندان کے خیمے میں پہنچ گئے جس نے ان کی دیکھ بھال کی۔ وہ وہاں تین برس تک رہے۔ اس کے بعد ان کا رابطہ اپنے بچ جانے والے کچھ رشتہ داروں سے ہو گیا اور وہ شمال میں واپس چلے گئے جہاں انھیں حکام سے چھپ چھپا کر رہنا تھا۔
سنہ 1996 میں انھیں امریکہ میں پناہ دے دی گئی اور اب وہ وہیں مقیم ہیں۔
سنہ 2009 میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد احمد عراق واپس آ گئے اور جس مقام پر قتلِ عام کیا گیا وہ جگہ ڈھونڈ نکالی۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘جب میں نے قبریں دیکھیں تو میں کانپ رہا تھا۔ میں رو رہا تھا۔’
’میں نے عراقی حکام سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ ان قبروں سے متعلق کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل انھیں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔’
تاہم رواں برس جون میں حکام نے ان کے علم میں لائے بغیر ان قبروں کو کھودنا شروع کر دیا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ مدفون افراد کے جسدِ خاکی کو کُرد علاقے میں لے جا کر دوبارہ دفنایا جائے۔
جب احمد کو اس منصوبے کے بارے میں اپنے دوستوں کے ذریعے پتا چلا تو وہ امریکہ سے واپس عراق آ گئے۔
تاہم اس وقت تک اس مقام سے 170 افراد کی میتیں نکالی جا چکی تھیں۔ احمد کا کہنا ہے کہ جو افراد قبر کشائی میں مصروف تھے انھوں نے مرنے والوں کی ہڈیاں اور دیگر ملکیتی اشیا وہیں چھوڑ دی ہیں۔
اب وہ حکام کے خلاف ایک قانونی جنگ لڑ رہے ہیں تاکہ انھیں وہ قبر کھودنے سے روکا جا سکے جس میں ان کے دعویٰ کے مطابق ان کی والدہ اور بہنوں کی میتیں موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے وہ قبر کشائی کا کام جاری رکھنے کی اجازت صرف اس وقت دیں گے جب یہ کام ‘باعزت’ اور باقاعدہ طریقے سے کیے جانے کے وعدے اور ساتھ ساتھ اس قتل عام کے ذمہ داران کے خلاف ٹرائل شروع کرنے کی ضمانت دی جائے۔
وہ اس قتل عام کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ ‘میں چاہتا ہوں کہ کیمرے ان معصوم بچوں کی لاشوں کو دکھائیں جنھوں نے گولیاں لگنے سے چند لمحوں قبل اپنی ماؤں کو سختی سے پکڑا ہوا تھا۔’
انھوں نے کہا ‘میرے پاس اپنی والدہ اور بہنوں کی کوئی تصویر نہیں ہے۔ میں ان کی باقیات کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتا ہوں۔’
عراقی حکام کا کہنا ہے کہ یہ کُرد حکام پر ہے کہ آیا وہ ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں سے رابطہ کرتے ہیں یا نہیں۔
کردوں کی علاقائی حکومت کے ترجمان فاد عثمان طحہ کے مطابق ‘وہ باقیات کا جائزہ لیں گے اور رشتہ داروں سے رابطے سے قبل وہ باقیات کے ساتھ موجود شناختی نشانیاں ڈھونڈیں گے۔’
‘ہم شواہد اکھٹے کر کے اس خصوصی عدالت کو بھیجیں گے جو اس جرم میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گی۔’
احمد کا اس مقام (جہاں قتلِ عام ہوا تھا) کے قریب اس وقت تک رہنے کا منصوبہ ہے جب تک ان کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے۔
احمد کہتے ہیں کہ ‘میرے خیال میں خدا مجھے کسی وجہ سے زندہ رکھنا چاہتا تھا۔ خدا نے مجھے ایک بڑا مشن سونپا ہے اور وہ مشن یہ ہے کہ ان معصوم لوگوں کی بات کروں جو اب بات کرنے کے قابل نہیں رہے۔’
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
- پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟ - 17/04/2024
- اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نتن یاہو کو؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).