سارنگ، نارنگ!


دو تین سال پہلے کا ذکر ہے، ایک رات گھر جاتے ہوئے ایک گیدڑ عین گاڑی کے سامنے آگیا، دراصل یہ ایک مادہ گیدڑ تھی اور اس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے۔ وہ گاڑی کی روشنی میں چند لمحے ہراساں سی کھڑی رہی پھر بھاگ کے پپیتے کے باغ میں گھس گئی۔ پیچھے پیچھے دونوں بچے۔

عقل مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ میں ان کو بھول بھال جاتی۔ مگر مجھے تجسس نے گھیرا اور میں چپکے چپکے ان کے پیچھے باغ میں پہنچ گئی۔ وہ اماوس کی رات تھی مگر آسمان اتنا روشن تھا کہ اگر کوئی ہل چل ہوتی تو نظر آجاتی۔ یوں بھی پپیتے کا نہ تو اتنا گھن ہوتا ہے اور نہ ہی سایہ۔ اس لیے سارا باغ ہی نظر کے سامنے تھا۔

تاروں کی مدھم روشنی میں میں نے دیکھا کہ وہ تینوں ایک پیڑ کے نیچے کھڑے منہ بھر بھر کے کچھ کھا رہے تھے۔ ذرا اور قریب ہو کر دیکھا تو وہ درخت سے گرا پکا ہوا پھل تھا۔ دونوں بچے بلونگڑوں کی طرح پیارے اور معصوم تھے۔ مجھے لگا ان کے نام سارنگ اور نارنگ ہیں۔ پپیتا کھانے کے بعد انھوں نے قریبی سندرے سے پانی پیا اور باغ ہی کے ایک کونے میں روپوش ہو گئے۔

اگلے دن روشنی میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ سندرے کے ساتھ ساتھ بے شمار بھٹ ہیں، جن میں سارنگ نارنگ کے درجنوں رشتے دار رہائش پذیر ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی، رات کی تاریکی میں جب میں یہ سوچ کر ہولا کرتی تھی کہ میلوں میل کوئی اور نہیں، اب یہ تسلی رہتی تھی کہ سارنگ نارنگ اپنے کنبے قبیلے کے ساتھ یہیں پڑوس میں آباد ہیں۔

سردیوں کی راتوں میں وہ اتنا شور مچاتے تھے کہ لگتا تھا بس دروازے پہ کھڑے ہیں۔ کتے بے چارے بھونک بھونک کے بے حال ہو جاتے تھے۔

ایسی ہی ایک رات مجھے کھڑکی کے باہر ایسی آواز آئی، جیسے کوئی بہت بڑا پرندہ اپنے مہیب پر پھڑ پھڑا رہا ہو۔ ان دنوں میرے پاس ایک طاقتور سرچ لائٹ ہوا کرتی تھی۔ ڈر تو ظاہر ہے بہت لگ رہا تھا مگر پھر وہی کم بخت تجسس۔ خیر باہر نکل کے گاڑی میں جا بیٹھی اور آواز کی جانب روشنی ڈالی تو میں حیران رہ گئی۔ درجنوں نہیں، بیسییوں باگلیں، گولر کے درخت سے چمٹی مشینی سرعت سے اس کا پھل کھا رہی تھیں۔ دور سے وہ بھی سارنگ نارنگ کی طرح معصوم بلونگڑے لگ رہی تھیں۔ چند ہی منٹوں میں انھوں نے سارا پھل کتر لیا اور پھر جیسی طلسمی اڑان بھر کے وہ یہاں آئی تھیں، ویسی ہی اڈاری مار وہ آسمان میں تارہ ہوئیں اور یہ جا، وہ جا۔

شاید اسی موسمِ سرما میں، میں ایک مہمان کے ساتھ بیٹھی کھلے آسمان تلے چائے پی رہی تھی۔ اچانک لگا کہ بادل چھا گئے ہیں اور ایک گونج سی ہر طرف چھا گئی۔ ان صاحبہ نے مجھے اشارے سے بالکل ساکت رہنے کا کہا۔ اسی وقت چند شہد کی مکھیاں میرے چاروں طرف چکر کاٹ کے ایک طرف کو اڑگئیں۔ گونج کچھ اور بڑھی اور پھر جیسے اندھیرا چھٹ گیا۔ میں نے کانی آنکھ سے دیکھا، وہ شاید لاکھوں شہد کی مکھیاں تھیں، جو اب لان میں لگے پرانے بیری کے درخت پہ چھاؤنی چھائے ہوئے تھیں۔

اسی بہار میں چاند کی چودھویں رات کو برآمدے کے باہر تیز چہچہاہٹیں سنائی دیں۔ میں نے نکل کے دیکھا تو چاند کی دودھیاروشنی میں شکر خوروں کا ایک جھلر انگور کی بیلوں پہ حملہ آور تھا۔ چاندنی میں ان کی پروں کا طاؤسی اور نیلا رنگ چمک رہا تھا۔ یہ نظارہ بھی چند منٹ رہا، پھر وہ سب بھرا مار کے جانے کہاں اڑ گئے۔

یہ سب باتیں اس لیے یاد آئیں کہ اس ہفتے جب میں گاؤں گئی تو رات کی خاموشی میں مجھے کوئی آوازنہ آئی۔ سارنگ نارنگ اور ان کا قبیلہ جانے کیوں خاموش تھا۔

اگلے روز میں نے جا کے دیکھا تو سب بھٹ ویران پڑے تھے۔ وہ جا چکے تھے۔ بظاہر یہ معمولی سی بات ہے، نہ اس کا تعلق ملک کی خارجہ پالیسی سے ہے، نہ ہی اس پر کسی بھی مسلک و مذہب کو تشویش لاحق ہو سکتی ہے۔ حد یہ ہے کہ گاؤں کے کتوں بلوں تک کو اس کی فکر نہیں، اور ہونی بھی نہیں چاہیے۔ بھلا چند گیدڑوں کے کہیں سے چلے جانے پہ کیا پریشان ہونا۔

ہو سکتا ہے کچھ عرصے کے بعد، باگلیں بھی نہ آئیں، شکر خورے اور شہد کی مکھیاں بھی غارت ہوں۔ ہاں تو ٹھیک ہے، جائیں، جہاں سینگ سماتے ہیں جائیں۔ ہم ترقی کرنے میں مصروف ہیں ابھی ہمیں نہ چھیڑا جائے، ترقی کرنے کے بعد، ایک چھوڑ ہزار سارنگ نارنگ بنوا لیں گے، پلاسٹک کے اور ساتھ ہی باج والے شکر خورے اور باگلیں بھی۔ ان کے علاوہ جو جو جانور پرندے غائب ہوں گے وہ بھی بنا لیں گے۔ ابھی سکون سے چائے کا یہ مگ ختم کریں اور کوئی دوسرا کالم پڑھیں جس میں کم سے کم گیدڑوں کو نام سے نہ پکارا گیا ہو۔
27 نومبر 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).