ہر کتا پاگل نہیں ہوتا!


” بلاول زرداری صاحب نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کہا کہ موجودہ چُنیدہ حکومت نے کشمیر کے ایشو سے توجہ ہٹانے کے لیے خورشید شاہ کو گرفتار کیا۔ بلاول صاحب کا یہ بیان سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس قسم کی وجوہات بتانے سے کون سے سیاسی اور حفاظتی پہلو متاثر ہو رہے ہیں ما سوائے کرپشن بچانے کے۔ بس کر دیں پیارے بلاول! کچھ توہمارے بچوں کے بارے میں بھی سوچیں کیا ان کو بحیثیتِ انسان سکون سے جینے اور ترقی کرنے کا کوئی حق ہے یا نہیں؟

ہر بار، ہر سرکار، ہر حکومت، ہر جمہوری نظام کل ہی پر بات کیوں ڈال دیتے ہیں؟ آخر آج کب آئے گا؟ آج کا دن کب شروع ہوگا؟ پیارے بلاول زرداری! کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ اس دنیا اوراس ملک کا حصّہ ہیں اور اس پہ طرہ یہ کہ پی پی کے چیئرمین ہیں۔ ایک روز آپ ایک جلسے میں کہہ رہے تھے کہ آپ خاندانی نواب ہیں اور آپ کا شمار اُمراء میں ہوتا ہے چلیے مان لیا لیکن کیا اس سے بقیہ عوام آپ کی رعایا بن گئی؟ اگر کسی لمحے کے ہزارویں حصّے میں یہ مان بھی لیا جائے تو کیا آپ کا فرض نہیں کہ اپنی رعایا کی تمام بنیادی ضرورتوں کو بہم پہنچانا آپ کا فرض اور ان کا پہلا حق ہے۔

خورشید شاہ صاحب کی گرفتاری ہوتے ہی بیماری اُن کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی تھی، فوراً ہی ساتھ ہو لی اور یوں شاہ صاحب ہسپتال پہنچ گئے۔ شاہ صاحب کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتے ہوئے معدے میں اُتھل پُتھل کرنے لگیں لیکن کیا کریں ان مشینوں کا جن کے ٹیسٹوں کے نتائج بالکل ٹھیک آئے ہیں۔ یوں بھی خورشید شاہ صاحب پہ ہر سیاست دان کی طرح یہ کیسز بھی بہت پُرانے ہیں۔ پی پی پی کی سینئیر قیادت کہہ رہی ہے کہ اگر ڈیل کرنا پڑی تو میاں صاحب ضرور کریں گے۔

مریم نواز نے بہت اچھی سیاست کی ہے لیکن میاں نواز شریف کے بیٹوں نے پیٹھ دکھا دی اپنے والد اور بہن کو بچانے کے لیے وہ نہیں آئے۔ اگر مریم اور نواز شریف بہتر سیاست کرتے تو بیٹوں کو بھی بچا سکتے تھے یعنی اس بات سے ظاہر ہوتا ضرور دال میں کچھ کالا تھا اور ہے۔ احسن اقبال صاحب سے سوال کیا گیا کہ آپ کے دور میں شہباز شریف صاحب زرداری کو اپنے جلسوں میں کہتے تھے کہ سوئس بینکوں میں غریبوں سے لُوٹا گیا پیسہ رکھا ہے اور ہم زارداری کا پیٹ پھاڑ کر یہ تمام پیسہ نکالیں گے تو پھر کیا ہوا؟

نہ تو ن لیگ والوں نے پیٹ پھاڑا اور نہ ہی پیسہ واپس لیا۔ اس کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ ہم نے زرداری صاحب پہ کیسز اس لیے نہیں بنائے تھے کہ اس سے ملک آگے نہیں جائے گا بلکہ ترقی کی ریل گاڑی پٹڑی سے اتر جائے گی۔ لیجیے جناب! بات واضح ہو جاتی ہے یعنی زرداری صاحب کے چور ہونے پر کوئی دو رائے ہے ہی نہیں۔ جب تک سیاسی بادشاہ لوگ اپنے آرام و سکون کے حلقے سے باہر نکل کر نہیں دیکھیں گے کیا ہو رہا ہے تو لوگوں کی زندگیوں میں ہلچل اور بے چینی ہی رہے گی۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ کچھ بھی لکھنے کا کیا فائدہ جب عوام نے سسکنا ہی ہے۔ حکومتیں تو ہر پانچ سال کے بعد بدلتی ہیں لیکن سماج اور اس کے لوگ بدل نہیں پاتے۔ غریب آج بھی اپنی زندگی کو چلانے کی تگ و دو میں تکلیفوں کی بھٹی میں جلتا جا رہا ہے غور کیا جائے تو امیر بھی اسی بھٹی میں جل رہا ہے کہ حساب کا ایک دن تو مقرر ہے۔ ایک غفلت سُنیے کی کہانی شکار پور ضلع کے قریب جاگن گاؤں کے علاقے مبارک ابرو کے ایک دس سالہ بچے جس کا پیارا سانام میر حسن تھا کو باؤلے کتے نے کاٹ لیا اس کا باپ اسے نزدیک ترین سلطان کوٹ ہسپتال لے گیا وہاں بتایا گیا کہ ویکسین موجود نہیں ہے اسے سول ہسپتال شکار پور لے جائیں وہاں بھی ویکسین ندارد کہا لاڑکانہ لے جائیں۔

اس کے ماں باپ اسے لاڑکانہ جو شکار پور سے پچاس کلو میٹر دور ہے لے جاتے ہیں۔ وہاں میر حسن کو بیڈ تک نہ ملا اور وہ ماں کی گود میں تکلیف سے بلبلاتا تڑپتا سڑک کنارے مر گیا۔ لاڑکانہ والوں نے کہا یہاں علاج موجود نہیں ہے اسے کراچی لے جاؤ باپ بولا ہم غریب کیسے لے جائیں۔ سوچیں یہ ستم رسیدہ لوگ کبھی روٹی کے لیے ٹھوکریں کھاتے ہیں اور کبھی روپے کی کمی کی وجہ سے فاقے کرتے مر جاتے ہیں۔ اُدھر سندھ کی صوبائی وزیر صحت محترمہ عذرا پیجو صاحبہ جو زرداری صاحب کی بہن ہیں انہوں نے کہا تھا کہ ”باؤلے کتے کے کاٹنے کی ویکسین چونکہ بہت مہنگی مرہم ہے لہذا اس کا استعمال سوچ سمجھ کے کرناچاہیے“۔

مزید کہا: ”سب کتے پاگل نہیں ہوتے کچھ کتے انتقام میں اپنے تحفظ کے لیے کاٹتے ہیں۔ یہ ضروری ہے جن لوگوں کو کتے نے کاٹا ہے پہلے وہ اُس کتے کو قابو میں کریں“۔ سندھ کے ارباب اختیار کو میرا مشورہ ہے کہ باؤلے اور آوارہ کتوں کوباڑے میں لے جا کر میونسپل والے انہیں مارنے کا فوری بندوبست کریں۔ اندرون سندھ میں آوارہ کتوں کی اتنی بھر مار ہے کہ بیشتر لوگ ویکسین لگوانے کراچی جاتے ہیں۔ آخر سندھ کو اربوں روپے صحت کی مد میں ملتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں؟

سب سے زیادہ ترس ان لوگوں پہ آتا ہے جن کی باتوں میں کوئی مرہم، کو دلاسا نہیں ہوتا اس کی ایک مثال سعید غنی صاحب ہے جو کہتے ہیں کہ میر حسن کو بکرا عید سے دو دن پہلے باؤلے کتے نے کاٹا تھا اور چالیس روز کے بعد اس کے ماں باپ اسے ہسپتال لے گئے اگر ٹیکہ پہلے لگ جاتا تو وہ بچ سکتا تھا۔ واہ صاحب! خوب کہا! یہاں مجھے فیضؔ صاحب کی نظم ”کتے“ یاد آ رہی ہے اس کے چند اشعار پر غور کیجیے :

یہ گلیوں کے آوارہ کتے

کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی

زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا

جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی

فیضؔ صاحب یہاں آوارہ کتوں کو موضوع بناتے ہوئے در اصل مفلس انسانوں کا ذکر کرتے ہیں کہ سرمایہ دار ان کو پرلے درجے کے انسان تو دور کی بات انہیں آوارہ کتا بھی نہیں سمجھتے۔ مرتضیٰ وہاب نے بھی اس بات سے انکار کیا ہے کہ ویکسین وہاں موجود تھی۔ دوسری طرف وہاں کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ویکسین موجود ہی نہیں ہے۔ اب کس کی بات مانی جائے اور کس کی نہیں فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے۔ اب دنیا سمٹ کر آپ کی ہتھیلی پر سما چکی ہے مگر ہمارے ملک میں ابھی تک باؤلے اور آوارہ کتے کو ٹھکانے لگانے کے باڑے تک نہیں بنائے گئے۔ دنیا کے ہر ملک میں آوارہ کتوں کو میونسپل کمیٹی والوں کی طرف سے مار دیا جاتا ہے۔ کیا ملک میں میونسپل کمیٹیاں ختم ہو گئی ہے بظاہر تو یہی لگتا ہے ملک کے مختلف شہروں میں جا بجا کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہمارا مُنہ چڑاتے ہوئے دکھائی دہتے ہیں۔ اپنی اسی نظم ”کتے“ میں فیضؔ صاحب آگے چل کر کہتے ہیں :

یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے

تو انسان سب سر کشی بھول جائے

یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں

یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں

کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے

 کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہلا دے

اختتام پہ یہی کہنا چاہوں گی کہ کوئی دن گزریں گے ان کچلے غریب لوگوں کی سوئی ہوئی حسیات جا گ گئیں تو پھر آقاؤں کی ہڈیاں تک نہ بچیں گی۔ آخری لائن جناب سعید غنی کے لیے آپ تو صاحبِ ایمان ہیں تو ایسے ظالم الفاظ کس منہ سے کہہ ڈالے شاید آپ سے تو وہ کافرلُوئی پسیچر اچھا تھا جس نے 1885 میں نو سالہ بچے جوزف میسٹر کو ویکسین لگا کر اُسے باؤلے کتے کے کاٹے سے بچایا۔ بلاول زرداری آگے بڑھیے ابھی وقت ہے غریبوں کی سطح پہ آکر زمین پر اتر کر سوچیے حقیقت نظر آنے لگی گی۔ ہر کتا واقعی پاگل نہیں ہوتا بس سوئی ہوئی دم والا کتا ہی پاگل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).