شکی شوہر اور دھوکے باز بیوی


وہ دو بھائی اور چار بہنوں کے بعد پیدا ہوا۔ بچپن سے ہی ایک ذہین بچہ تھا۔ کھلونے سے کھیلنے کے دوران بھی وہ بڑوں کی باتوں پر دھیان دیتا۔ اور اپنے مطابق ان کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔ وہ اپنی عمر سے بڑی بڑی باتیں کرتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تھی گھر کا ماحول۔ اس نے بچپن سے ہی ماں باپ کے درمیان جھگڑا دیکھا۔ اس کے والد سخت مزاج کے انسان تھے۔ بات بات پہ بیوی کو جھڑک دیتے تھے۔ والدین کی آپس میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے گھر کا ماحول بھی متاثر ہوتا تھا۔

کیونکہ وہ حساس اور ہر چیز کو دل پہ لینے والا بچہ تھا۔ باپ کے ہاتھوں ماں کی تذلیل دیکھ کر اس کو برا محسوس ہوتا مگر وہ بے بس تھا۔ وہ ماں باپ کی شفقت چاہتا تھا مگر گھر کے حالات اور اتنے سارے بہن بھائیوں کے بیچ اس کو زیادہ لاڈ پیار نہ مل سکا۔ وہ ہمیشہ سے توجہ چاہتا تھا کہ لوگ اس کی تعریف و ستائش کریں۔ اس کی بات سنی اور مانی جائے۔ وہ جس چیز کو چاہے اسے مل جائے۔ اور جب یہ تمام باتیں پوری نہ ہو سکی تو اس کے اندر ضد، غصہ اور انتقام پیدا ہوگیا۔

اس کو سب سے زیادہ یہ بات کھلتی کہ مجھے کوئی پیار ہی نہیں کرتا۔ میری ماں میرے بجائے غیروں کے بچوں کو سینے سے لگاتی ہے۔ وہ اپنا مقابلہ دوسرے بچوں سے کرتا۔ ماں جب اپنی نواسی کو پیار کرتی تو وہ وہ اپنی سگی بھانجی سے حسد کرنے لگا۔ وہ پوری طرح احساس کمتری میں مبتلا ہوتا گیا۔ بات بات پہ ناراض ہو جانا اب اس کا روز کا معمول بن گیا۔ کبھی کھانا نہیں کھانا کبھی دوستوں کے ساتھ بن بتائے چلے جانا۔ اب وہ جوانی کی دہلیز پہ آ پہنچا، اس کا مزاج کافی کڑوا ہو گیا تھا۔

اس کی یہ عادت بن چکی تھی کہ جس کام کو لوگ اسے منع کرتے وہ دل میں ٹھان لیتا کہ میں تو یہ کروں گا۔ اکثر ایسا وہ ضد میں کرتا۔ شادی کے معاملات ہوئے تو گھر والوں نے اپنی پسند سامنے رکھی مگر وہ تو ان تمام لوگوں کو بچپن سے نا پسند کرتا تھا کیونکہ اس کے حصے کی محبت تو بھانجی اور دیگر کزنز کو مل گئی تھے۔ اس نے اپنی پسند کی شادی کرنے کا اظہار کیا اور سب کی مخالفت کے بعد شادی کرلی۔ گھر والے اس عمل سے بہت ناراض ہوئے مگر وہ نہ مانا۔

شادی کے بعد ایک نیا آغاز ہوا۔ جس لڑکی سے شادی کی اگلے دن اس کی باتوں میں نقص نکالنا اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ وہ اس قدر تند مزاج تھا کہ ابتدا سے ہی اس کی بیوی سے نہ بنی۔ ظاہر ہے جس کی ماں باپ بہن بھائی سے کبھی نہ بنی تو بیوی سے کیسے بنتی۔ شوہر بننے کے بعد ناداستہ طور پر اس کا انداز اپنے باپ کے جیسا تھا۔ وہ بیوی سے ویسا ہی سلوک کرتا جیسا اس کا باپ اس کی ماں کے ساتھ کیا کرتا تھا۔ بات بات پہ کیڑے نکالنا، لوگوں کے سامنے تذلیل کرنا اس کا روز کا معمول تھا۔

اپنی ہر ناکامی پر وہ بیوی کو ذمہ دار ٹھہراتا۔ اس کو لگتا اس کی زندگی میں جو مسائل ہیں وہ بیوی کے بری قسمت کی وجہ سے ہیں۔ وہ حد درجہ خود پسند تھا۔ چونکہ اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوئی تو وہ بیوی سے چاہتا کہ وہ اس کی ہر بات پہ سر تسلیم خم کرے۔ اب یہ ایک منفی سوچ کا مرد بن چکا تھا۔ ہر بات ہر واقعہ کو منفی انداز میں لیتا اور اس کے منفی معنی اخذ کرتا۔ اسی دوران اس کا ایک بیٹا ہوا اور وہ بھی پیدا ہوتے ہی اس ماحول سے متاثر ہونے لگا۔ اولاد کی ولادت سے قبل ہی اس نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ بچہ کی وجہ سے بلیک میل ہوگا نہ تبدیل ہوگا۔ ویسے بھی یہ گاڑی چلنے والی نہیں ہے اور نہ یہ بچہ اس کی خواہش ہے، کبھی کہتا بچے کو ایدھی سینٹر چھوڑ کے آجاؤں گا۔ وہ مکمل نفسیاتی مریض بن چکا تھا۔

اس کے گھر والے جو اس کی شادی سے پہلے ہی ناخوش تھے اسے اس کی غلطی پہ شرمندہ کرتے اور سمجھاتے کہ بیوی کو پاؤں کی جوتی سے زیادہ نہ سمجھنا۔ بہنیں کہتی ابھی طلاق دو اور قصہ ختم کردو۔ اس نے بھی دوسری لڑکیوں کے ساتھ روابط بنا لیے۔ اور اپنی کولیگز اور یونیورسٹی کی دوستوں سے دوبارہ تعلقات استوار کر لیے۔ اب وہ کسی بہانے کا منتظر تھا۔ کردار اس کا خراب تھا مگر شک بیوی پہ کرتا۔ بیوی کا فون چیک کرتا۔ اس کو تالے میں بند کرکے باہر جاتا۔ اس نے بنا ثبوت گھٹیا قسم کی الزام تراشیاں شروع کردی۔ معصوم بچے کے سامنے شور شرابہ کرتا جس سے بچہ سہم جاتا۔ دو سال ساتھ رہنے کے باوجود جب اسے کوئی بڑی وجہ نہ ملی تو اس نے بیوی کے کردار پہ انگلی اٹھائی اور بیوی کو طلاق دے دی۔

طلاق کے بعد وہ خود کو کافی پرسکون اور ہشاش بشاش محسوس کرنے لگا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نحوست اس کی زندگی سے جا چکی ہے اور اب وہ آزاد پنچھی کی طرح فضاؤں میں اڑے گا۔ اس کا بیٹا ماں کے پاس تھا جو اس کو گوارا نہ تھا۔ گوکہ وہ بچے کی ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتا تھا مگر سابقہ بیوی کو سبق سکھانے اور ذلیل کرنے کے لیے فیملی کورٹ میں کسٹرڈی کا کیس کر دیا جو وہ ہار گیا۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ، پھر ہائیکورٹ اور آخر میں سپریم کورٹ میں کیس کیا مگر یکے بعد دیگرے وہ تمام کیس ہارتا گیا۔

ہارنا اس نے سیکھا نہیں تھا تو اس بار اس نے پولیس کو شامل کیا اور معصوم بچے کو زبردستی تھانے ملوانے کے لیے بلوایا گیا۔ ایسا وہ اولاد کی محبت میں کرتا تو بہت اچھا تھا لیکن یہ وہی شخص تھا جو بچہ پیدا ہونے سے پہلے اس کا گلا گھونٹ کے ماردینے کی دھمکی دیتا تھا۔ ایسا وہ اس لیے کر رہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں ایک عورت کا کورٹ کچہری کرنا مشکل امر ہے۔ اور وکیلوں کی بھاری فیس ادا کرنا بھی آسان نہیں۔ بہرحال اس نے اپنے تئیں تمام اوچھے ہتھکنڈے اختیار کیے، بالاخر بیٹے نے خود ہی باپ سے ملنے سے انکار کر دیا اور اس طرح یہ چیپٹر کلوز ہو گیا۔

اس کی ماں بہنوں نے اس کو یقین دلایا کہ اس کی بیوی اس کے قابل ہی نہ تھی اور وہ اپنے چاند جیسے بھائی کے لیے چاند جیسی ہی بھابھی لائیں گی۔ اور واقعی ایک دن نہایت خوبصورت لڑکی سے اس کی شادی ہوگئی۔ وہ اپنی قسمت پہ نازاں تھا اور اپنی پہلی شادی کے فیصلے پہ نادم۔ کیونکہ یہ شادی ارینجڈ تھی تو شروع میں ہی اس کی ماں نے اسے تنبیہ کر دی تھی کہ پرانی غلطیاں نہ دوہرانا۔ درحقیقت اس کی ماں اپنے بیٹے کے مزاج کو بخوبی جانتی تھی مگر بولتی اس لیے نہیں تھی کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔

بہرحال اس بار ماں گاہے بگاہے بیٹے کو اچھا شوہر بننے کی تلقین کرتی رہتی۔ دوسری بیوی بھی ذرا کم عمر اور چالاک تھی، وہ جانتی تھی شوہر خود پرست ہے اور اس کو کس طرح قابو میں رکھنا ہے۔ اگر جھوٹی تعریف کر بھی دے تو بدلے میں اسی کا فائدہ ہے۔ وہ اپنی بیوی پہ اندھا بھروسا کرتا تھا۔ وقت یوں ہی رواں دواں تھا کہ ایک دن وہ اپنے محلے میں ایک دوست کے گھر گیا۔ وہ تقریباً روز ہی ان کے گھر آتا جاتا تھا۔ اکثر دوست گھر پہ نہ بھی ہو تو اس کی بیوی سے ملنے چلا جاتا۔ دونوں کے درمیان اچھے خوشگوار مراسم تھے۔ اس کی بیوی اکثر اسے دوست کے گھر جانے سے منع کرتی اور ان کے درمیان جھگڑے بھی ہوتے مگر وہ نہ مانتا۔

ایک دن حسب روایت دوست کے گھر گیا اور بھابھی سے ہنسی مذاق میں مشغول ہوگیا۔ باتوں کے درمیان پڑوسن نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ”سنو میں کئی دن سے تم سے ایک بات کہنا چاہ رہی تھی مگر پہلے میں مکمل جانکاری کرلینا چاہتی تھی۔ “

”بھابھی! آپ پہلیاں کیوں بجھوا رہی ہیں“ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔

”وہ۔ بات یہ ہے کہ میں کئی دنوں سے بلکہ مہینوں سے دیکھ رہی ہوں کہ روز صبح تمہارے دفتر جانے کے بعد تمہاری ساس تمہارے گھر آتی ہے اور ہفتہ اتوار جس دن تم گھر پہ ہوتے ہو اس دن وہ نہیں آتی“ پڑوسن نے گھما پھرا کے بات کا آغاز کیا۔

جس پر اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا: ”مجھے تو اِس بات کا علم ہے بھابھی“

”ہاں مگر تمہیں یہ علم نہیں کہ ان کے ساتھ کچھ عجیب و غریب مرد بھی آتے ہیں۔ جو کافی دیر تک تمہارے گھر میں ہی ہوتے ہیں۔ ایسا ایک بار نہیں تقریباً روز ہی ہوتا ہے۔ شروع میں مجھے لگا کہ شاید تمہارے کوئی سسرالی رشتہ دار ہوں گے، جن کو تمہاری ساس لے کر آتی ہے، مگر اب وہ مرد تنہا بھی آنے لگے ہیں جو مجھے کافی معیوب لگا۔ “ پڑوسن نے ساری تفصیل اس کے گوش گزار کردی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2