خیبرپختونخواہ، طالبات اور عبایہ


17 ستمبر، بروزمنگل وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان نے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا تمام سرکاری سکولوں کو جاری کردہ نوٹیفیکیشن جس میں بچیوں کو لازمی طور پر عبایہ یا چادر پہننے کی ہدایت کی گئی تھی واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ سیکرٹری تعلیم خیبرپختونخواہ، ارشد خان نے ایک نجی چینل کو بتایا کہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی جس کے تحت چادر اوڑھنا یا برقع پہننا لازمی ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر نے اس معاملہ پر کسی ڈیپارٹمنٹ یا وزیرِ اعلیٰ کو اعتماد میں نہیں لیا۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے لباس زیب تن کرے۔

پیر کی رات پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤ نٹ سے ٹویٹ کیا گیا کہ خیبر پختونحواہ حکومت جبر پر یقین نہیں رکھتی۔ شہری آزاد ہیں کہ وہ اپنے لیے منتخب کریں جو ان کے لئے بہترین ہے۔ لڑکیوں کے لازمی عبایہ پہننے سے متعلق جاری کیا گیا نوٹس فوری واپس لیا جائے گا۔ نوٹیفکیشن واپس ہونے کے بعد وفاقی وزیر انسانی حقوق شریں مزاری نے ٹویٹ کیا لڑکوں کے غلط کاموں کی سزا لڑکیوں کو دی جانا دانشمندی نہیں۔ لڑکیوں کو نشانہ بنانے والے لڑکوں کو سزا ملنی چاہے۔ ہم اپنی لڑکیوں کو سزا نہیں دے سکتے ہمیں آمر ضیاء کے دور میں واپس نہیں جانا۔

پچھلے ہفتے خیبر پختونخواہ کے علاقہ ہری پور میں محکمہ تعلیم کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا جس میں علاقہ کے سکول کی طالبات کو ہدایت جاری کی گئی کہ اپنی حفاظت کے لئے عبایہ، برقع یا پوری چادر اوڑھیں۔ ایجوکیشن افسر نے کہا کہ دوپٹہ یا آدھی چادر بڑھتے ہوئے ہراسانی کے واقعات سے بچانے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ ہر طالبہ کو پولیس کا تحفظ دینا حکومت کے لئے ممکن نہیں۔ 16 ستمبر کو ڈسڑکٹ ایجوکشن افسر پشاور نے ضلع بھر کے مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں کے سربراہان کوحکم نامہ جاری کیا کہ تمام طالبات کو یہ لازمی ہدایت کی جائے کہ وہ عبایہ، برقع یا چادر اوڑھاکریں۔ کسی غیر اخلاقی واقعہ سے بچنے کی خاطر اس معاملے کو انتہائی اہم اور ضروری سمجھا جائے۔

اس نوٹیفیکشن کے اجراء کے ساتھ ہی ملک کے طول وارض سے اس پر رائے دی جانے لگی۔ مشیرِ تعلیم خیبر پختونخواہ ضیا اللہ خان بنگش اس کا مسلسل دفاع کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچیوں کی حفاظت کی خاطر اوران کے والدین کی تسّلی اور دِلی سکون کے لئے پورے پردے کا نفاذ ازحد ضروری ہے۔

صحافی انصار عباسی نے کہا ہری پور میں سکول و کالج کی بچیوں کے لئے مناسب پردہ کرنے کی ہدایات جاری کرنے پر متعلقہ حکام قابلِ تحسین ہیں۔ اب مغرب سے مرعوب دیسی لبرلز کا ایک طبقہ اس اقدام کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو گا۔ اس اقدام کے حق میں سوشل میڈیا پر اپنی آواز بلند کریں۔ انھوں نے پھر کہا خیبر پختونخواہ کی حکومت اور صوبائی وزیرِ تعلیم مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے صوبہ بھر کے سکول کی بچیوں کے لئے پردہ کو لازم قرار دے دیا۔ پردہ اللہ کا حکم ہے اور امید ہے دوسرے صوبے بھی خیبر پختونخواہ حکومت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلامی احکامات پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کریں گے۔

بعدازاں انہوں نے کہا میڈیا میں بیٹھے دیسی لبرلز خیبر پختونخواہ حکومت کی طرف سے سکولوں میں پردہ کے حکم پر پھٹ پڑے ہیں۔ خیبر پختونخواہ حکومت سے میری درخواست ہے کہ پردہ کے متعلق اللہ کے حکم کے نفاذ میں ٹی وی چینلز میں بیٹھے مٹھی بھر دیسی لبرلز کے دباؤ میں مت آئیں۔ لبرلز اور این جی اوز کے بس میں ہو تو فحاشی و عریانی کو خوب پھیلا دیں۔

بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکن، مشہور گلو کار شہزاد رائے نے ٹویٹ کیا طالبات دوپٹہ اوڑھتی ہیں بھاری بستے اٹھاتی ہیں اپنے لباس کی وجہ سے اچھے طریقے سے کھیلوں میں شرکت نہیں سکتیں۔ اب ہراسانی سے بچانے کے لئے حکومت انھیں عبایہ اور چادر پہنانا چاہتی ہے ان بچیوں کو تبدیل کرنا چھوڑئیے حالات کو تبدیل کیجیے۔ اینکرپرسن شا ہ زیب خانزادہ نے سوال اٹھایا، خیبر پختونخواہ حکومت کیسے اس نتیجے پر پہنچی کہ جنسی ہراسانی کے پیچھے کسی شخص کی بیمارذہنیت نہیں بلکہ بچیوں کے کپڑے ہیں۔

ماہر قانون ریما عمر نے ٹویٹ کیا ”بچیوں کوعبایہ پہننے پر مجبور کرنا ہمارے دستور میں دیے گے بنیادی حقوق کے منافی ہے یہ اس ریسرچ کے بھی خلاف ہے جس کے مطابق بچوں اور بچیوں کو جنسی تشدد کا خطرہ برابرلاحق ہوتا ہے۔ لباس سے اس کا کوئی تعلق نہیں یہ حکومت کا بچوں کے تخفظ سے جان چھڑانے کے مترادف ہے“۔ ایک نجی چینل کے پروگرام میں ریما عمر کا کہنا تھا کہ خیبر پخوانحواہ میں طالبات پر عبایہ کی پابندی لگانے والوں کو اپنا دماغی علاج کروانا چاہے۔ یہ لوگ نو دس سال کی بچیوں کو دیکھتے ہیں تو انھیں جنسی آبجیکٹس نظر آتے ہیں۔

صحافی حفیظ اللہ نیازی نے نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ”ہم نے کالج، یونیورسٹی یا سکول میں عبایہ پہننے کے احکامات کو فساد کی وجہ بنا لیا ہے۔ حیرت ہے کہ ہم کس دیدہ دلیری سے پاکستان کے آئین وقانون کے خلاف بات کررہے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے“۔

تجزیہ نگار جسن نثار نے کہا ”خیبرپختونحواہ میں طالبات پر عبایہ پہنے کی پابندی اعتراف شکست ہے۔ میں نے بانی پاکستان کی اہلیہ، صاحبزادی یا ہمشیرہ کی تصویروں میں کبھی عبایہ نہیں دیکھا۔ “

ماہرقانون بابر ستار کا کہنا تھا کہ ”پاکستان کا آئین یہ نہیں کہتا کہ عورتیں عبایہ یا بر قعہ پہن کر باہر نکلیں۔ آئین حکومت کو اختیار نہیں دیتا کہ کسی کو لباس کے معاملہ میں پابند کرے۔ آئین کا آرٹیکل 5 کہتا ہے کہ شہری آزاد ہے ہرکام کرنے کے لیے جس سے اسے کوئی قانون روکتا نہیں ہے“۔ تجزیہ نگار ارشاد بھٹی نے کہا ”حکومت کو طالبات کے لباس پر مداخلت کا اختیار حاصل ہے۔ آپ فرانس یا سووئٹزر لینڈ چلی جائیں وہاں دوپٹہ یا عبایہ نہیں پہن سکتی ہیں۔ “

اوریا مقبول جان نے ٹویٹ کیا ”اگر لبرلوں کے نزدیک پردہ کرنے سے خواتین محفوظ نہیں تو داقعی شریعت کا مکمل قانون نافذ کریں۔ جو زناکی شرعی سزا ہے وہ لاگو کریں پھر دیکھتے ہیں پاکستان میں کیسے یہ سب رکتا ہے۔ لبرل پردہ کے بھی مخالف ہیں اور ریپ کرنے والے کو دی جانے والی شرعی سزا کے بھی مخالف ہیں“۔ سابقہ وزیر تعلیم خیبر پختونحواہ، سردار حسین بالک نے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ صوبے میں تعلیمی رحجان پر منفی اثر ڈالے گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2