قصور کی تحصیل چونیاں میں بچوں سے زیادتی کے بعد قتل: کیا ڈی این اے پولیس کو ملزم تک پہنچا سکتا ہے؟


مظاہرہ

ضلع قصور ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز ہے اور وجوہات وہی ہیں۔ تحصیل چونیاں کے ایک علاقے سے چند روز قبل ایک کمسن بچے کی لاش اور دو کے باقیات ملے تھے۔ مقامی افراد کے خدشات سچ ثابت ہوئے۔ فیضان نامی کمسن بچے کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

باقی دو کے بارے میں بھی قیاس یہی ہے۔ یہ بچے گذشتہ چند ماہ کے دوران لاپتہ ہوئے تھے۔ لگ بھگ ایک برس قبل قصور ہی سے کمسن بچی زینب سمیت سات بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے جرم میں عمران نامی ایک شخص کو پھانسی دی گئی تھی۔

عمران کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس نے پہلی مرتبہ فرانزک طریقہ تفتیش کو کلی طور پر استعمال کیا تھا۔ اسی طریقہ کار سے اکٹھے کیے گئے شواہد کی بنیاد پر عمران کو عدالت سے سزا بھی ملی۔

ایک مرتبہ پھر پولیس کو ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ علاقے میں غیر یقینی کی فضا قائم ہے۔ پولیس پر ملزم یا ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

پولیس کے سامنے وہ علاقہ ہے جہاں سے بچے غائب ہوئے، پھر وہ مقام جہاں سے ان کے باقیات ملے اور پولیس کے مطابق تاحال کوئی عینی شاہد سامنے نہیں آیا ہے۔ چونیاں مضافاتی علاقہ ہے جہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں تو ملزمان تک کیسے پہنچا جائے گا؟

یہ بھی پڑھیے

’امید تھی کہ شاید بیٹا زندہ ہو، اب وہ بھی باقی نہیں رہی‘

ایک گمشدہ بچے کے والدین نے کپڑوں کی شناخت کرلی

پولیس ایک مرتبہ پھر اسی حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہے جس کے ذریعے زینب کے قاتل عمران کو گرفتار کیا گیا تھا۔ علاقے کے بالغ مردوں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس طرح اس شخص تک پہنچا جا سکے گا جس کے نمونے بچے کی لاش پر پائے گئے۔

تاہم عمران کی گرفتاری کے واقعے کے بعد اب یہ طریقہ کار نیا نہیں رہا۔ اگر مبینہ قاتل اس بات کا اندازہ لگاتے ہوئے کہ اس کی گرفتاری اس طرح عمل میں لائی جا سکتی ہے، وہاں سے بھاگ جائے تو اس صورتحال میں یہ حکمتِ عمل کتنی کارگر ثابت ہو گی؟

چونیاں

فیضان کی والدہ نے پولیس اور اعلی حکام سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس پہلے اپنا کام درست انداز میں کرتی تو ان کے بچے کو بچا سکتی تھی

پولیس کے سامنے کیا کچھ موجود ہے؟

پنجاب حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دی ہے جس کی سربراہی قصور کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر زاہد مروت کر رہے ہیں اور اس میں انٹیلیجنس بیورو اور محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے افسران بھی شامل ہیں۔

پنجاب کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آپریشنز انعام غنی کے مطابق پولیس کو ایک بچے فیضان کی مکمل لاش ملی ہے جبکہ دو کھوپڑیاں اور انسانی ڈھانچے کے چند باقیات ملے ہیں۔ یہ باقیات ایک دوسرے سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھے۔

فیضان کی لاش ایک کھڈے کے اندر الٹی پڑی تھی۔ بظاہر انھیں وہاں لا کر پھینکا گیا تھا، دفن کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ باقیات کی مدد سے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بچوں کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پولیس بچوں کے بارے میں کیا کچھ جانتی ہے؟

زینب کیس کے برعکس پولیس کے پاس اس مرتبہ سی سی ٹی وی فوٹیج وغیرہ نہیں ہے۔ چونیاں کے اس نیم شہری علاقے میں کیمرے نصب نہیں تھے۔ تاہم پولیس کے مطابق بچوں کے حوالے سے میسر معلومات ان کی رہنمائی کر سکتی ہے۔

تینوں بچوں کی عمریں سات سے دس برس کے درمیان ہیں۔ یہ دیہاتی بچے ہیں جن میں زیادہ تر کام کرتے تھے یعنی چھوٹی موٹی اشیا بیچتے تھے۔

اے آئی جی آپریشنز پنجاب انعام غنی کا کہنا تھا کہ اس طرح یہ قیاس لگایا جا سکتا ہے کہ بچوں کو اغوا کرنے والا شخص یا اشخاص ان کے لیے نئے نہیں تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘اس طرح کے بچے عموماً آرام سے کسی اجنبی کے ساتھ نہیں جاتے۔ سو اس بات کا کافی امکان ہے کہ ملزم ان بچوں کا جاننے والا تھا۔’

پولیس کے مطابق زیادہ امکان یہی ہے کہ ملزم اسی علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔

انعام غنی کہتے ہیں کہ ‘زیادہ امکان یہی ہے کہ شاید اس میں کسی ایک شخص کا کردار ہو۔ عموماً اس قسم کے افراد گروہ میں کام نہیں کرتے اور ایسا بھی مشکل ہے کہ زیادہ افراد مرنے کے بعد بچوں کو ایک ہی جگہ پر پھینکتے ہوں۔ مگر ہم ہر قسم کے امکانات کا کھل کر جائزہ لے رہے ہیں۔’

چونیاں

فرانزک سب سے موزوں طریقہ ہے؟

پولیس جمعے کی رات تک پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے100 سے زائد افراد کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کر چکی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مطلوبہ نمونہ نہ مل جائے۔

اے آئی جی آپریشنز پنجاب انعام غنی کے مطابق مشکوک افراد اور پولیس کے پاس ریکارڈ یافتہ افراد کو بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے بھی ڈی این اے کے نمونوں کے ذریعے تصدیق کی جائے گی۔

جائے وقوع سے فرانزک کی ٹیمیں شواہد اکٹھے کر رہی ہیں جن کا سائنسی طریقے سے جائزہ لیا جائے گا۔ انعام غنی کے مطابق ‘فرانزک طریقہ کار سب سے موزوں اور محفوظ ہے۔ اسی کے ذریعے ہم اپنا کام جاری رکھیں گے جب تک ہم صحیح شخص تک پہنچ نہیں جاتے۔’

ووٹروں کی فہرست کی مدد کیوں لی جا رہی ہے؟

پولیس کے مطابق مذکورہ علاقے کی حد بندی کرنے کے بعد اس کو چھوٹے چھوٹے وارڈوں میں تقسیم کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد پولیس نے ووٹروں کی لسٹیں حاصل کر لی ہیں۔ پولیس کی ٹیمیں گھر گھر جا کر لوگوں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔

ان لسٹوں کی مدد سے پولیس کو یہ معلوم ہو پائے گا کہ اس علاقے میں کتنے بالغ عمر کے مرد موجود ہیں اور ان میں کتنے لوگ ڈی این اے کے نمونے دینے کے لیے نہیں آئے۔ اے آئی جی انعام غنی کے مطابق ‘جو نمونہ دینے نہیں آیا وہ مشکوک ہو جائے گا اور ہم اس تک پہنچ سکتے ہیں۔’

انعام غنی کے مطابق اگر ووٹر لسٹوں سے بھی انھیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو وہ مردم شماری کی فہرستیں حاصل کریں گے۔ اس طریقہ کار سے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ملزم ڈی این اے کے نمونے دینے سے بھاگنے نہ پائے۔ ‘جو بھاگے ہوں گے ان پر زیادہ آسانی سے کام ہو سکتا ہے۔’

اگر ملزم کسی دوسرے علاقے سے آیا ہو؟

اے آئی جی آپریشنز پنجاب انعام غنی کے مطابق اس بات کے امکانات کم ہیں تاہم پولیس ان تمام افراد کی تحقیقات بھی کر رہی ہے جو اس قسم کے جرائم میں پولیس کو مطلوب ہیں۔

اس کے باوجود پولیس نے علاقے میں میں جیو فینسنگ بھی کر رکھی ہے۔ اس طریقہ کار کے ذریعے موبائل فون کے ریکارڈ کی مدد سے کسی شخص کی لوکیشن کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔

اے آئی جی انعام غنی کے مطابق اس طرح اگر کوئی نمبر علاقے کے باہر سے بھی ہے تو اس کا پتہ چل سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘جہاں سے بچوں کی لاشیں ملی ہیں وہ ایک ویرانہ ہے۔ اگر وہاں کسی ایسے فون نمبر کا پتا چلتا ہے جسے وہاں کال موصول ہوئی یا میسیج آیا تو وہ تحقیقات کے دائرے میں آ سکتا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس اس کیس کے حوالے سے اگر زیادہ معلومات نہیں ہیں تو ‘ہم مکمل اندھیرے میں بھی نہیں ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp