صحافی کو بے روزگار کرنے کے پرانے اور نئے طریقے


ایک مفلوک الحال شاعر کے گھر میں چور آ گیا۔ نصف شب کا وقت تھا۔ آنکھ کھلی تو شاعر کو حالات کا اندازہ ہوا۔ کہنے لگا ’میاں، یہاں تو دن کے اجالے میں ہمیں کبھی قیمتی شے دکھائی نہیں دی، تم اندھیرے میں کیا تلاش کر رہے ہو؟‘ کوئی اِس سوچ کو ’بلیک ہیومر‘ کہہ لے یا میری خود غرضی، لیکن جب سے پاکستانی میڈیا میں چھانٹیوں اور برطرفیوں کا طوفان برپا ہوا ہے، متواتر اِسی سوچ میں ہوں کہ مَیں بھی بعض اَور دوستوں کی طرح کسی عہدے پہ فائز ہوتا تو امید و بیم کی موجودہ کیفیت کتنی جان لیوا ہو سکتی تھی۔ یہ اِس لئے بھی کہ دادا کے گھر میں ہوش سنبھالتے ہی ایک جملہ کان میں پڑا تھا کہ ’ابا جی کو کام میں گھاٹا پڑ گیا ہے‘۔ ابکے گھاٹا نہیں پڑا،بلکہ عجب حیوانی سی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ باقاعدہ روزگار تھا ہی نہیں اِس لئے روزگار چھِن جانے کے خطرے سے محفوظ ہو گیا ہوں۔

تو کیا ذاتی زندگی ہمیشہ سے اِسی ڈگر پہ چل رہی تھی؟ اگر نہیں تو بے روزگاری سے کب کب دوچار ہوئے؟ جواب دینے میں تامل یوں کہ اِس میں کچھ کاروباری بھید کھولنے پڑیں گے۔ جیسے یہی کہ آخری باضابطہ مصروفیت ایک نامور اشتہاری ایجنسی کے ساتھ تھی۔ ایک تو ایڈورٹائزنگ کا شعبہ اکثر اُتار چڑھاؤ کا شکار رہتا ہے۔ مہم چل رہی ہے تو وارے نیارے، نہیں چل رہی تو سب کچھ ٹھپ۔ یہ تجربہ اِس لئے بھی منفرد لگا کہ ابتدائی تاثر کے اُلٹ بندے کے ذمہ نہ تو کاپی رائٹنگ یا ڈیزائننگ کا کام تھا نہ کوئی انتظامی فرائض۔ چئیرمین نے، جو خود انگریزی کے اچھے کالم نویس تھے، مجھے اپنا کنسلٹنٹ رکھ لیا اور کہا کہ چپکے بیٹھے رہو، تنخواہ مَیں نہیں دیتا، کلائنٹ دیتا ہے۔ پھر کچھ مہینے گزرنے پر یہ کہہ کر رخصت کر دیا کہ ’کلائنٹ نے مزید تنخواہ دینے سے انکار کر دیا ہے‘۔ چلیے چھٹی ہوئی۔

میرے ساتھ جو ہوا سو ہوا، لیکن آدمی ہر تجربے سے کچھ نہ کچھ سیکھتا تو ہے۔ سبق یہ ملا کہ نوکری چلتی رہنا اور اُس میں ترقی ہے تو بہت اچھی چیز مگر اِس کا تمام تر دارومدار آپ کی فرض شناسی اور استعداد ِ کار پہ نہیں ہوا کرتا۔ ’تمام تر‘ تو جوشِ خطابت میں کہہ دیا ہے، وگرنہ عہدِ حاضر میں سب سے غیر متعلقہ عوامل شاید یہی ہیں۔

مجھے یہ اہم نکتہ ٹی وی چینل سماء کے منتظم اعلی جاوید فاروقی نے سمجھایا۔ مَیں لاہور اُن کا پہلا بیورو چیف تھا کہ ایک شام فاروقی صاحب کا فون آ گیا۔ ہمیشہ کی طرح سلجھے ہوئے لہجے میں بول رہے تھے، لیکن متن خطرناک لگا۔ ایک پروڈیوسر اور ہمارے ایڈمنسٹریٹر آفیسر کا نام لے کر کہنے لگے کہ انہیں نکال دیں۔ ’شریف لوگ ہیں اور کارکردگی مثالی ہے‘۔ ’شاہد صاحب، ہر بات کا تعلق کام سے نہیں ہوتا‘۔ یہ سچ تھا کیونکہ کچھ ہی دن میں خود جاوید فاروقی بھی نکال دیئے گئے۔

ابتدائی مرحلے کے وارننگ شاٹس اور مذکورہ کلائمیکس کے درمیان مجھ سمیت آٹھ سینئر عہدہداران کی علیحدگی کا مرحلہ بھی ہے۔ صدائے جرمنی، بی بی سی، رائٹر ایجنسی اور اخبارات سے آئے ہوئے یہ صحافی وہی تھے جنہوں نے چینل کے متن، تصویری مواد اور اسلوب کو عالمی معیار پہ لانے کا خواب دیکھا تھا۔ مگر ضروری تو نہیں کہ عامل صحافی اور کاروباری دانش کے حامل سرمایہ کار ایک ہی خواب دیکھیں۔

ایک نظریاتی چینل میں جہاں مَیں شعبہ خبر کا سربراہ رہا، ہمارے باصلاحیت چیف آپریٹنگ افسر سید حماد غزنوی کی سبکدوشی بھی ایک الگ کہانی ہے۔ پھر ایک شام گروپ کے منکسر المزاج سی ای او ملنے کے لئے آئے تو حاصلِ کلام یہ تھا ’نظامی صاحب کہتے ہیں کہ وقت نیوز میں ایک شاہد ملک ہی کام کا آدمی ہے۔ آپ صبح اُن سے مل لیجئے‘۔ ’جناب، بڑے عہدے پہ کام کرنے کے لئے ایم ڈی صاحب کے ساتھ جس نوعیت کی انڈرسٹینڈنگ چاہیے مَیں وہ پیدا نہیں کر سکوں گا، لہذا رہنے دیں‘۔ سی ای او چائے کے بغیر واپس چلے گئے۔

کہتے ہیں میدانِ جنگ سے فوج کی پسپائی کا عمل پیش قدمی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کوئی ڈیڑھ سو ساتھیوں کے فارغ کئے جانے پر مَیں نظریاتی ملازمت سے ذہنی طور پہ کنارہ کش ہو گیا تھا۔ اگلا قدم اٹھانے کے لئے مزید ہمت درکار تھی کہ ایک صبح ہمارے انتظامی افسر کا فون آ گیا جن سے مَیں نے نوکری چھوڑتے ہوئے ڈرامہ نہ کرنے کا دوستانہ سمجھوتہ کر رکھا تھا۔ ’بہتر ہے آج دفتر نہ آئیں، کوئی اور ڈائرکٹر نیوز آ رہے ہیں‘۔ ’تو میرے بارے میں کیا کہا ہے؟‘ ’سوچ رہے ہیں کہ نیشن اخبار میں بھیج دیں‘۔ ’اور اگر استعفٰے دے دوں؟‘ ’پھر تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا‘۔ ایم ڈی ایک دن کے لئے اسلام آباد میں تھے۔ یوں دو سطریں لکھ دینے سے میرا کام گھر بیٹھے ہی ہو گیا۔ انتظامی افسر نے استعفٰے سنبھالتے ہوئے یاد دلایا کہ فوٹو کاپی تو پاس رکھ لیتے۔ کہا ’مَیں نے متن یاد کر لیا ہے‘۔

آج کل کلیدی عہدوں پہ فائز نیم خواندہ سینئر مینجرز کے دَور سے پہلے ہمیں فارغ کرنے والوں نے انسانی نفسیات کا مطالعہ بھی کر رکھا تھا۔ سو، وہ اُس بے ہتھیار شکاری کی طرح حملہ آور ہوتے جس نے ایک دوپہر شیر کو کچھار میں آرام کرتے دیکھ لیا اور چپکے سے بظاہر ایک بے ضرر سی حرکت کر ڈالی۔ جنگل کا بادشاہ تھا، غیرت سے وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اپنے اولین پاکستانی چینل کے منتظم اعلی سے سیکھے ہوئے سبق کی طرح کہ کام ہی سب کچھ نہیں ہوتا، مَیں نے اِس سے پہلے اپنے انگریز شکاری سے بھی ایک اصطلاح نئی سیکھی۔ الفاظ تھے ’بیلنسنگ ایکٹ‘ یعنی ترازو کو متوازن رکھنا۔ شکاری کی اِس تشویش پر کہ ایک سینتیس سالہ کارکن کو اگر ترقی دے دی تو آئندہ تئیس سال کیا ہم اِس کا اچار ڈالیں گے، کالم نویس کی وطن واپسی کی تجویز مان لی گئی اور اُس کی تنخواہ ایک تہائی کر دینے سے پلڑوں کا دھڑا ہو گیا۔

بیلنسنگ ایکٹ کی کئی چالیں احمد ندیم قاسمی کے اِس شعر کی تعبیر ہوا کرتی ہیں کہ ’مجھ کو نفرت سے نہیں، پیار سے مصلوب کرو‘۔ جیسے یہی کہ اگر کوئی نسبتاً نوعمر کارکن پیشہ ورانہ زندگی کے کسی آئندہ مرحلے پر اصولی موقف پہ ڈٹ جانے کی امکانی صلاحیت رکھتا ہو تو اُسے با اختیار منصب تک پہنچنے سے روکنا بہرحال ناگزیر ہے، لیکن کیا یہ بھی ضروری ہے کہ ادارہ ایک وسیع المطالعہ، فرض شناس اور خوش مزاج رفیقِ کار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے؟ یہاں پہنچ کر پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے وہ آزمودہ کار پنجابی افسران یاد آنے لگتے ہیں جو ہمارے ابتدائی بچپن میں حکومتی بدنظمی کے خفیف سے اشارے سے کسی کرنل نکلسن یا میجر ویسکم کو یاد کرکے اونچی آواز میں کہتے ’اوہ ہو ہو، ایڈمنسٹریشن کر گیا انگریز، ہمیں تو ایڈمنسٹریشن آ ہی نہیں سکتی‘۔

اب یہ کہتے ہوئے اپنا آپ جاسوس جاسوس سا لگتا ہے کہ پچھلی صدی میں وطن واپسی سے لے کر بی بی سی میں برسوں بعد اپنے کریا کرم تک صدر دفتر سے چار ہزار میل کی دوری پہ بھی کام کرنے کا مزا آیا۔ کسی نے کبھی نہ کہا کہ یہ خبر دو اور یہ نہ دو۔ رہا جھنڈی دکھائے جانے کا مرحلہ تو یہ بھی ایک سطح پہ بیلنسنگ ایکٹ تھا۔ کہا گیا کہ جنوبی ایشیا کے آٹھ علاقائی نامہ نگاروں کے سالانہ معاہدوں کی تجدید نہیں ہو گی، لیکن یہ کارکن اگر عالمی سروس کے بجائے اپنے اپنے لینگویج سیکشن کے لئے کام جاری رکھنا چاہیں تو اُس کی گنجائش موجود ہے۔۔ نیشنل یونین آف جرنلسٹس نے اِسے ’برطرفی تعبیری‘ کہا اور زرِ تلافی کی ادائیگی ہوئی۔ اِسی برطرفی کی بدولت میرے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہوئے اور دل سے دعا نکلتی رہی کہ یاخدا، ہر صحافی کو بی بی سی میں نوکری ملے اور پھر وہ برطرف بھی ہو۔

بی بی سی پاکستان کے نام سے پرانے وقتوں کی اردو سروس تو اب اسلام آباد منتقل ہو چکی۔ تو کیا اب یہاں بھی برطرفیوں یا امتیازی سلوک کی صورت میں ہم روایتی انگریز کے حسنِ سلوک کی توقع کریں؟ اوکھا سوال ہے، لیکن اگر اسے مذاق نہ سمجھیں تو ممکن ہے کہ مسئلے کا پائیدار حل اب سے تراسی سال پہلے قائم کئے گئے اُس ٹرسٹ کے مقاصد کی روشنی میں نکالا جا سکے جو روزنامہ گارڈئین کا منافع صحافت کی ترویح و ترقی پہ خرچ کرتا رہا۔ ٹرسٹ کے پیشِ نظر یہ تھا کہ گارڈئین کی مالی اور ادارتی آزادی کو مستقل طور پہ یقینی بنایا جائے اور یہ صحافتی آزادی اور اعتدال پسندانہ اقدار تجارتی اور سیاسی دخل اندازی سے مبرا ہوں۔

آپ کہیں گے کہ یہ ٹرسٹ کوئی دس سال پہلے لمیٹڈ کمپنی بن جانے پر ابھی تک کاروباری مشکلات سے دوچار ہے۔ ہاں، بورژوازی سے لڑنے کے لئے بورژوا ہتھیاروں سے مسلح ہونا پڑے گا۔ مَیں نے تو اتنی خواہش کی ہے کہ گارڈئین کی طرح ہمارے صحافی بھی اپنے کسی چمنستان کے والی بن جائیں۔ بصورتِ دیگر غالب کا یہی شعر ہماری دل جوئی کرتا رہے گا:

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا

رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).