سعودی تیل پر حملے: امریکہ نے اپنا تیل زیرِزمین کیوں چھپایا ہوا ہے؟


امریکہ تیل ذخائر

سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکہ میں ہنگامی حالات کے لیے ذخیرہ کیے گئے تیل کو استعمال کرنے کی بات بھی کی گئی۔

تیل کی عالمی قیمتیں بڑھنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر پیغام جاری کیا تھا کہ وہ اُس تیل کو استعمال کر سکتے ہیں تاکہ مارکیٹ میں تیل کی طلب کو قابو میں رکھا جا سکے۔

وہ اس تیل کی بات کر رہے تھے جو 640 ملین سے زائد بیرلز کی شکل میں ٹیکساس اور لوئیزیانا کی ریاستوں میں نمک کے غاروں میں ذخیرہ کیا گیا ہے۔ اس طرح تیل ذخیرہ کرنے کا خیال 1970 کی دہائی میں سامنے آیا تھا۔

بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے تمام ارکان پر یہ لازم ہے کہ اتنا اضافی تیل اپنے پاس بچا کر رکھیں جو 90 دن تک کی تیل کی درآمدات جتنا ہو۔ مگر امریکہ کے پاس دنیا کا سب سے بڑا ایمرجنسی تیل کا ذخیرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی تیل کی کہانی، یہ دولت کب آئی اور کب تک رہے گی؟

پہلی مرتبہ امریکہ کی تیل کی برآمدات درآمدات سے زیادہ

تیل سے مالا مال سعودی عرب میں پانی کی بڑھتی پیاس

اسے کیوں قائم کیا گیا؟

1970 کے اوائل میں امریکی سیاست دانوں نے پہلی مرتبہ ایک بڑے تیل کے ذخیرے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب مشرق وسطیٰ کے ممالک نے تیل کی تجارت پر پابندی عائد کر رکھی تھی جس سے عالمی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا تھا۔

ایران، عراق، کویت، قطر اور سعودی عرب سمیت عرب ممالک کی تیل برآمد کرنے کی تنظیم کے ممبران نے امریکہ کو تیل بیچنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سنہ 1973 کی عرب اسرائیلی جنگ میں امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دیا تھا۔

اِسی سال اکتوبر میں جنگ صرف تین ہفتوں تک چلی۔ لیکن تیل کی تجارت پر پابندی مارچ 1974 تک عائد رہی اور اسے دوسرے ممالک پر بھی نافذ کیا گیا جس سے عالمی قیمتیں چار گنا بڑھ گئیں، یعنی تیل کی قیمت تین ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 12 ڈالر ہو گئی۔

متاثرہ ملکوں کے پیٹرول پمپوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔ ان مناظر کی تصاویر اس بحران کی نشاندہی کرتی ہیں۔

سنہ 1975 میں امریکی کانگریس نے توانائی پالیسی اور تحفظ کا قانون منظور کیا۔ اسی سلسلے میں پٹرول کے سٹریٹجک ذخائر بنائے گئے تاکہ ایسی نوعیت کے مسائل کا حل نکالا جاسکے۔

امریکہ تیل ذخائر

امریکہ میں تیل کے ذخائر کیسے ہیں؟

فی الحال چار مقامات پر تیل کے ذخائر بنائے گئے ہیں، جن میں دو ریاست ٹیکساس کے فری پورٹ اور وینی جبکہ باقی دو لوئیزیانا میں جھیل چارلس اور بیٹن روگ کے قریب واقع ہیں۔

ہر مقام میں 3300 فٹ تک کی گہرائی پر انسان کے تعمیر کردہ غار ہیں جہاں تیل ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ یہ زمین پر ٹینکروں میں تیل رکھنے سے کافی سستا اور محفوظ طریقہ ہے اور نمک کے کیمیائی مرکب اور ارضیاتی دباؤ کی بدولت تیل کے اخراج کا بھی خطرہ نہیں۔

تیل کی قیمتوں کی سیاست

سعودی عرب کے پاس تیل کا کتنا ذخیرہ موجود ہے؟

فری پورٹ کے قریب برائن ماؤنڈ میں قائم سب سے بڑے ایسے زیرِ زمین گودام میں 254 ملین بیرل تیل ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔

ذخائر کی ویب سائٹ کے مطابق 13 ستمبر کو ان غاروں میں کل 6448 لاکھ بیرل تیل موجود تھا۔

امریکہ میں توانائی کی معلومات فراہم کرنے والے ادارے کے مطابق ملک میں سنہ 2018 میں پٹرول کے اوسطاً 205 لاکھ بیرل فی دن استعمال کیے جاتے تھے۔ اس کا مطلب ہے امریکہ کے پاس 31 دن کا اضافی تیل موجود ہے۔

امریکہ تیل ذخائر

یہ کیسے کام کرتا ہے؟

صدر جیرارڈ فورڈ کے 1975 میں دستخط شدہ قانون کے مطابق صرف امریکہ کے صدر اس صورت میں تیل کے ذخائر استعمال کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں اگر ’توانائی کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ‘ آتی ہے۔

وسائل کی قلت کے باعث ہر دن صرف محدود مقدار میں تیل غاروں سے باہر لایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے صدر کی منظوری کے بعد اس تیل کو مارکیٹ تک پہنچنے میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ یہ خام تیل ہے۔ استعمال کے لیے پہلے اسے صاف کرنا ہوگا تاکہ تیل کو ایندھن کے طور پر گاڑیوں، بحری جہازوں اور طیاروں میں استعمال کیا جا سکے۔

سعودی تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکہ کے وزیرِ توانائی رِک پیری نے ٹی وی چینل سی این بی سی کو بتایا تھا کہ ان حملوں کے باوجود ابھی امریکی ذخائر استعمال کرنے کی بات کرنا ’قبل از وقت‘ ہوگا۔

امریکہ تیل ذخائر

کیا یہ پہلے استعمال ہوئے ہیں؟

ان ذخائر کو آخری مرتبہ سنہ 2011 میں استعمال کیا گیا جب عرب سپرنگ کے دوران بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے ممبر ممالک کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر 60 ملین بیرل تیل جمع کیا تاکہ ایندھن کی رسد میں رکاوٹ کم کی جاسکے۔

تاہم امریکہ نے کچھ مواقع پر بڑی تعداد میں تیل کے بیرل فروخت کیے ہیں۔ صدر ایچ ڈبلیو بش نے 1991 کی خلیجی جنگ کے دوران اس کے استعمال کی منظوری دی تھی جبکہ ان کے بیٹے صدر جارج بش نے سمندری طوفان کترینا کے بعد 11 ملین بیرل فروخت کرنے کی اجازت دی تھی۔

لیکن ایسے وقت میں امریکہ میں اتنے بڑے تیل کے ذخیرے کی افادیت پر سوال اٹھائے گئے ہیں کہ جب توانائی کی پیداوار میں کافی ترقی ہو چکی ہے۔ کچھ نے تو واشنگٹن میں ان ذخائر کو ختم کرنے کی بات بھی کی ہے۔

حکومتی دفترِ احتساب نے 2014 میں اپنی رپورٹ میں یہی کہا تھا کہ اسے ختم کرنے سے امریکی صارفین کے لیے پٹرول پمپوں پر قیمتیں کم رکھی جا سکتی ہیں۔

سنہ 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ نے اس بات پر بھی غور کیا تھا کہ تیل کے آدھے ذخائر بیچ کر وفاقی خسارہ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

سنہ 1997 میں صدر بل کلنٹن کے دور میں خسارہ کم کرنے کے لیے 28 ملین بیرل فروخت بھی کیے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp