کہہ دے کوئی اُلو کو اگر رات کا شہباز


دو دن سے پنجاب کا ضلع قصور ہمیشہ کی طرح بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے ایک بار پھر موضوعِ بحث ہے۔ میں بذاتِ خود بھی اِسی شہر کا باسی ہوں اور دو دن سے لوگوں کے سوالوں کا سامنا کر رہا ہوں کہ آخر آپ کے شہر میں یہ واقعات ختم کیوں نہیں ہو رہے؟ لوگ ابھی بہ مشکل ایک سانحے سے اپنی توجہ ہٹاتے ہیں کہ کوئی اور سانحہ رونما ہو جاتا ہے لیکن ان واقعات کی روک تھام کا نتیجہ صفر رہا ہے، آخر کیوں؟

کل وزیراعظم پاکستان کی ایک ٹویٹ نظر سے گزری تو لکھا تھا کہ: ”صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک درج ذیل اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں : 1 ) DPO قصور کو ہٹایا جا رہا ہے۔ 2 ) SP انویسٹیگیشن، قصور خود کو قانون کے حوالے کر چکے ہیں (جبکہ انہیں صرف ٹرانسفر کر کے CCPO آفس میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے )۔ 3 ) DSP اور SHO کو معطل کیا جا چکا ہے۔“ ہر واقعے کے بعد افسران کو معطل کر دینا یا تبادلہ کر دینا کیا یہی معاملہ چلتا رہے گا؟ کیا کوئی مستقل روک تھام کے لئے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے جائیں گے؟ کیا یہی وہ تبدیلی ہے جس کے عوام نے خواب دیکھے تھے اور اب بھُگت رہی ہے۔

کسی بھی صوبے کا وزیرِ اعلیٰ (جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے سب سے اعلیٰ وزیر) بہت ہی اہمیت کا حامل شخص ہوتا ہے اور ہمیشہ یہ منصب کسی ایسے شخص کو عنایت کیا جاتا ہے جو ہر طرح سے اِس کرسی کے لوازمات پورے کرنے کا اہل ہو۔ قصور میں تین بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ایک ساتھ ملی ہیں اور پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نے ایک بیان دینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے فرمایا کہ ”ہم نے آتے ہی ضلع قصور میں خصوصی طور پر سیف سٹی پراجیکٹ شروع کروایا جس کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے۔“

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ چونیاں میں سیف سٹی پراجیکٹ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اگر ریاضی کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِس پراجیکٹ کو تحصیل چونیاں میں فرض بھی کر لیا جائے تو بھی عالی جاہ! عوام نے اچار ڈالنا ہے آپ کے سیف سٹی پراجیکٹ کا جب ان کے بچے ہی سیف نہیں ہیں۔ اور پھر آپ اپنے سیف سٹی پراجیکٹ کا اندازہ اِسی بات سے لگا لیں کہ ایک ہی دن میں تین تین بچوں کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں مگر مجرموں کا کوئی سراغ نہیں لگ سکا۔ حضور قصور کی عوام آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے اور چیف آف آرمی سٹاف سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ آپ کے اِس سیف سٹی پراجیکٹ کو 21 روز تک 21 توپوں کی سلامی دی جائے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے صرف ایک ٹویٹ کی اور اُ س میں بھی تحصیل چونیاں کی بجائے تحصیل پتوکی کا ذکر کر دیا۔ آپ سرکار کو یہ بھی معلوم نہیں کہ واقعہ کہاں پیش آیا ہے۔ مجھے تو یہ ٹویٹ پڑھنے کے بعد خدشہ لاحق ہے کہ کہیں عوام وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو ”Qaim Ali Shah “II کے خطاب سے نہ نواز دیں، جیسے کہ Elizbath۔ I، Elizbath۔ II کی مثالیں آج بھی دنیا کے سامنے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسا سلسلہ یا شجرہ سامنے آجائے جس سے معلوم ہو کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا سلسلہ سابقہ وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے ملتا ہے اور دونوں قریبی رشتہ دار ہیں۔

ویسے یہ بات کسی حد تک قابلِ قبول بھی ہے کیونکہ موصوف کا تعلق ڈی جی خان سے ہے۔ اگر آپ نقشے کو بغور دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ لاہور سے سندھ کا فاصلہ 1040 کلو میٹر ہے جبکہ ڈی جی خان سے سندھ کا سفرصرف 650 کلو میٹر ہے، اس حساب سے تو سائیں قائم علی شاہ کے قریبی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ فقط اتنا ہی کہوں گا: ”A bad manager can take a good staff and destory it، causing the best employees to flee and the remainder to lose all motivation۔ “ میں ہمیشہ سے ہی مسلم لیگ (ن) کا مخالف رہا ہوں لیکن شہباز شریف صاحب کا بطورِکامیاب اور اچھا ایڈمنسٹریٹر آج بھی احترام کرتاہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).