عمران خان گلگت بلتستان کو بلدیاتی نظام دلائیں


مقامی حکومتیں دراصل جمہوریت کی نرسری ہوتی ہیں۔ یہی وہ فورم ہے جو مستقبل میں ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے قیادت فراہم کرتا ہے۔ ترکی کے مقبول صدر رجب طیب اردوان، ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد اور ایسے کتنے عالمی رہنما ہیں جو بنیادی طور پر مقامی حکومتوں کی پروڈکشن ہیں۔ یہ ہو گئی قیادت کی بات۔ یعنی مقامی حکومتیں مستقبل میں قوم کے لئے قیادت فراہم کرنے کی نرسری ہوتی ہیں۔ ثانیاً یہ کہ گورننس کا راز با اختیار و متحرک مقامی حکومتوں کے قیام میں مضمر ہے۔

سماج کا ذکر کریں تو گلیوں محلوں کے مسائل کیا ہیں؟ ان جھملیوں کا ادراک کس کو ہو گا؟ لوگوں کے روزمرہ کے چھوٹے موٹے معاملات کون حل کرے؟ شہر، بازار کی صفائی ستھرائی کا سسٹم کیسا ہو اور کون بنائے؟ ندی نالوں کی صفائی کون کرے؟ باغات، پارکوں کو کون دیکھے؟ نکاسی آب، سستا بازار، کمیونٹی سینٹر، فلاحی مراکز، پرائمری ہیلتھ، ان سب کا کوئی والی وارث؟ ظاہر ہے اسلام آباد سے تو یہ سب چیزیں کنٹرول نہیں کی جا سکتیں۔

خلق خدا کے مسئلے مسائل ان کی دہلیز پہ حل ہوں۔ یہی ہے وہ فلسفہ جس پہ دنیا بھر کی جمہوری ریاستوں میں مقامی حکومتوں کا تصور رائج ہے۔ یعنی مقامی مسئلہ مقامی آدمی جانتا ہے، اس کا حل بھی وہی نکالے۔ مگر پاکستان میں بدقسمتی سے لوکل جمہوری نظام جمہوریت کی چمپیئن سیاسی جماعتوں کو کھٹکتا ہے۔ ہر دور میں سیاسی حکومتوں نے ہی لوکل باڈیز کے قیام میں لیت ولعل سے کام لیا ہے۔ 15 سال گزر گئے صوبہ نما گلگت بلتستان میں مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں ہوئے۔

یوں تو پاکستان کے چاروں اصلی و آئینی صوبے بھی پرویزی آمریت کے بعد کئی سالوں تک مقامی حکومتوں سے محروم رہے۔ تاہم عدالت عظمٰی کے بار بار احکامات کے بعد جمہوری حکومت کو بادل نخواستہ انتخابات منعقد کرنے ہی پڑے۔ پاکستان میں تو خیر جیسے تیسے کر کے لوکل باڈیز سسٹم بحال ہو گیا۔ 2005 کے بعد پہلی بار بلوچستان میں 2013 میں لوکل باڈیز الیکشن ہوئے۔ 2015 میں پنجاب کی مسلم لیگی حکومت اور سندھ کی پیپلز پارٹی حکومت کو بھی مقامی انتخابات کرانے پڑے۔

یہ دراصل سپریم کورٹ کا حکم تھا نہ کہ ان پارٹیوں کا جمہوری کریڈٹ۔ 2018 میں زمام حکومت سنبھالنے والی تحریک انصاف اپنے منشور کی حد تک مقامی حکومتوں کی بڑی حامی و شیدائی رہی ہے۔ عمران خان الیکشن مہم کے دوران عوامی جلسوں میں اعادے اور اصرار کے ساتھ یہ کہتے رہے ہیں کہ حکومت میں آکر مضبوط اور موثر بلدیاتی سسٹم دیں گے۔ خان صاحب خاص طور پر یہ بات دہرایا کرتے تھے کہ ہر مقامی حکومت کا سربراہ میئر لندن جیسا ہونا چاہیے۔

یعنی وہ مکمل با اختیار ہو، اسے حکومت چلانے اور ڈلیور کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کیا جائے۔ جو جو ڈیپارٹمنٹس بلدیہ یا ضلعی حکومت کے ماتحت آنے چاہئیں وہ سب مکمل طور پر لوکل گورنمنٹ کے ڈومین میں ہوں۔ یہاں تک کہ عمران خان ایسا بلدیاتی نظام لانے کا دعویٰ کرتے تھے کہ ایک ضلع، تحصیل یا شہر کے کُل ترقیاتی بجٹ بھی وہاں کی مقامی حکومت کے ماتحت خرچ ہوں گے۔ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے ممبران صرف قانون سازی پہ توجہ مرکوز کریں گے۔

ان کو کوئی ڈیویلپمنٹ فنڈ نہیں ملا کرے گا۔ ترقیاتی بجٹ لوکل گورنمنٹ کا سبجیکٹ ہو گا۔ دراصل یہی جمہوری روح کا تقاضا بھی ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے ممبران قانون بنائیں۔ مقامی حکومتیں ترقیات کا شعبہ دیکھیں، ترقی و بحالی کا کام کریں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے منشور کے مطابق پولیس، محکمہ تعلیم، واٹر سپلائی سمیت 20 کے آس پاس شعبے بلدیاتی حکومت کو ملنے تھے۔ ملک میں تحریک انصاف کی حکومت آئے ایک سال سے زائد عرصہ بیت گیا۔

اس دوران خیبر پختونخوا کی ضلعی و شہری حکومتیں اپنی مدت پوری کر چکی ہیں۔ ادھر پنجاب میں مقامی حکومتوں کو قبل از وقت پی ٹی آئی حکومت نے توڑ دیا ہے۔ سندھ میں چونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لہٰذا کراچی سمیت صوبے بھر کے اضلاع میں میئر، ناظمین، چیرمینز اور کونسلات بدستور کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سال کے اندر پنجاب اور کے پی کے میں مقامی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ اسمبلی کی منظوری اور گورنر کے دستخط کے بعد پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2019 منظور ہو چکا ہے۔

دلچسپ امر یہ کہ پنجاب اور پختونخوا کے بلدیاتی نظاموں کو کافی حد تک یکساں بنایا گیا ہے۔ گو کہ مذکورہ دونوں صوبوں کے بلدیاتی نظام تحریک انصاف کے انتخابی منشور کے عین مطابق تو نہیں ہیں، عمران خان نے مقامی حکومتوں کو جتنا با اختیار بنانے کے دعوے کیے تھے مذکورہ بلدیاتی گورنمنٹ کے ڈرافٹس اس کی تائید نہیں کرتے تاہم دو صوبوں میں نئے بلدیاتی اداروں کے لئے قانون سازی پھر بھی قابل تحسین عمل ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ہم یہی امید کرتے ہیں کہ دونوں صوبوں میں ایک سال کے اندر نئے اور ایک حد تک با اختیار مقامی ادارے نئے مقامی انتخابات کی کوکھ سے جنم لے چکے ہوں گے۔

اب آتے ہیں گلگت بلتستان کی طرف۔ جیسا کہ ابتدائی سطور میں ذکر کیا گیا کہ گلگت بلتستان میں 2004 کے بعد مقامی حکومت کے لئے الیکشن نہیں ہوا۔ یعنی 15 سال سے اس خطے میں جمہوری نرسری بنجر پڑی ہے۔ نوجوانوں کو سیاسی کیرئیر کا موثر و مفید فورم دستیاب نہیں۔ ضلعی حکومتوں کا نظام نہیں، یونین کونسل کے معاملات کیسے چل رہے ہیں عوام کو خبر نہیں۔ اب یہ تحریک انصاف کا فرض اول بنتا ہے کہ گلگت بلتستان میں مقامی حکومت کے قیام کے لئے ہوم ورک کرے۔

نوجوان قیادت سامنے لانے کی سبیل نکالے۔ پرویز مشرف آمر تھے، ڈکٹیٹر تھے، آئین شکن تھے۔ تسلیم! مگر مشرف کے دور میں یہاں دو بار بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ مشرف گئے تو یہاں سے بلدیہ گئی، ضلعی حکومت ختم ہوئی۔ یونین کونسل بے حال ہوئی۔ تحریک انصاف خود کو گلگت بلتستان کی ”منتظر حکومت“ سمجھ بیٹھی ہے۔ ایسے میں پارٹی کے مقامی رہنماؤں کو چاہیے کہ گلگت بلتستان میں ایک موثر و متحرک بلدیاتی سسٹم کے لئے ابھی سے کام شروع کریں۔

پارٹی کی مرکزی قیادت کو بھی باور کرائیں۔ پارٹی رہنماؤں کے مطابق عمران خان 4 اکتوبر کو سکردو کا دورہ کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر جعفر شاہ اور گورنر راجہ جلال آئندہ بلدیاتی نظام کو بھی عمران خان کے دورے کا منشور بنائیں۔ عمران خان سے سکردو میں اعلان کرائیں کہ 2020 کے صوبائی انتخابات میں پی ٹی آئی کو کامیابی ملی تو ایک سال کے اندر یہاں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائیں گے۔ با اختیار بلدیاتی ادارے قیام عمل میں لائیں گے۔ گلگت بلتستان میں تاریخ کا بہترین لوکل گورنمنٹ نظام لائیں گے۔

گلگت بلتستان میں مقامی حکومتوں کا خدوخال کیسا ہو؟ کتنی کونسلز ہوں؟ کونسل کی ساخت کیا ہو؟ بلدیاتی ناظمین، چیرمین اور اراکین کے اختیارات کیا ہوں؟ ان سب کا تذکرہ میں اگلے کالم میں کروں گا۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen