بھارت نے کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی مان لی توپھر؟


بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے سامنے تین ایریا کی پبلک رہی ہے۔ پہلی پاکستان کی پبلک، دوسری بھارت کی پبلک اور تیسری بین الاقوامی پبلک۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم اور مظلوم کشمیریوں کی کسمپرسی کی حالت زار مندرجہ بالا تینوں ایریا کی پبلک کو بتاتا چلا آرہا ہے جس کے باعث پہلا یہ کہ پاکستان کی پبلک کشمیر کے سلسلے میں عموماً حکومتی بیانیے کو تسلیم کرتی ہے۔ پاکستانی حکومتیں اِس سلسلے میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے وہ اپنی پبلک کو دل و جان سے اپنے ساتھ پاتی ہیں۔

دوسرا یہ کہ پاکستانی حکومتیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے معاملے میں بھارتی پبلک کو اپنے بیانیے سے تھوڑا سا بھی متاثر کرنے میں کامیاب نہیں رہتی تھیں۔ تیسرا یہ کہ پاکستانی حکومتیں بین الاقوامی پبلک کو کشمیر کے معاملے میں اپنے ساتھ ملانے میں ظاہری طور پر بھی کم کامیاب رہتی تھیں۔ جموں اور سری نگر کی کشمیر وادی کو انڈین یونین میں شامل کرنے کے 5 اگست 2019 ء کے بھارتی اقدام کے خلاف پاکستان نے اپنا ردعمل مندرجہ بالا تینوں ایریا کی پبلک تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی جس کے دوسری اور تیسری دو ایریا کی پبلک کے حوالے سے ذرا مختلف نتائج سامنے آئے۔

پاکستان کی پبلک پہلے کی طرح دل و جان سے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہی کھڑی نظر آئی۔ پاکستان کے سامنے دوسرا ایریا بھارتی پبلک بھی ہوتی ہے۔ اس پبلک نے بھی کچھ تبدیلی محسوس کی۔ مطلب یہ کہ اِس مرتبہ بھارت کے اندر بھی مقبوضہ کشمیر کو انڈین یونین میں شامل کرنے کے خلاف ہلکی اور کچھ اونچی آوازیں سنائی دیں جن میں سب سے اہم بھارتی مقبوضہ کشمیر کی وہ سیاسی قیادت ہے جو اس سے قبل بھارت کو اپنا سرپرست مانتی چلی آرہی تھی جس میں فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسی لیڈرشپ شامل ہے۔

بین الاقوامی پبلک کے سلسلے میں پہلے سے مختلف بات یہ ہوئی کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو کچھ ظاہری سفارتی کامیابیاں ملیں۔ بیشک اِن کے فوائد فوری نہیں تھے لیکن بھارتی مذکورہ اقدام کے خلاف اور مظلوم کشمیریوں کی خبریں انٹرنیشنل میڈیا میں جگہ پانے لگیں۔ پاکستانی بیانیے میں 5 اگست کے بعد پاکستانی پبلک، بھارتی پبلک اور بین الاقوامی پبلک کے سامنے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کو بھارتی جارحیت سے نجات دلوانے کے لیے جو حکمت عملی ظاہر کی گئی ہے اس کے تینوں ایریا میں ممکنہ نتائج کچھ اس طرح ہو سکتے ہیں۔

پاکستانی پبلک کے جذبات کے ممکنہ نتیجے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی پبلک نے 5 اگست کے بھارتی فیصلے پر شدید غم و غصے کا ردعمل دیا۔ پاکستانی پبلک بھارت کے اس فیصلے کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے دکھ جیسا ہی دکھ سمجھی۔ پاکستان کی بوڑھی نسل کو اگست 1947 ء کی اپنے پیاروں کی خون سے لت پت لاشیں اور اپنی پیاریوں کی بے کفن عزتیں نظر آنے لگیں۔ اُس بوڑھی پاکستانی نسل نے اپنے آپ کو اگست 1947 ء کے دنوں میں دوبارہ کھڑا پایا۔

پاکستان کی نوجوان نسل نے اپنی جوانی والے پورے جذبات کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کو طاقت کے ساتھ سبق سکھانے کا عزم کیا۔ اس سب کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستانی حکومت نے 5 اگست کے بھارتی فیصلے کی سیاہ کاریوں کو پوری شدومد کے ساتھ پاکستانی پبلک کے سامنے رکھنے کے لیے مختلف بیانات، تقریریں اور پروگرامز مرتب کیے جن میں ہر جمعے کو یکجہتی کشمیر ریلی اہم سرگرمی قرار پائی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی لیڈرشپ نے بھارت کو اینٹ کا جواب پتھرسے دینے کا کھل کر مسلسل اعلان بھی کیا جس کی اکثر پاکستانی پبلک نے بھرپور تائید کی۔

بھارت کے خلاف پاکستانی عوام کے جذبات 5 اگست کے بعد جس سطح پر آچکے ہیں کیا کسی واضح نتیجے کے بغیر اُن جذبات کی واپسی آسان ہوگی؟ پاکستانی حکومت کے پاس بھارت کے ساتھ نمٹنے کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ پہلا راستہ جو مذاکرات کہلاتا ہے اس کا گزشتہ 72 برسوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے اب بھی کسی فائدے کا امکان نہیں ہے۔ دوسری صورت اپنے دفاع میں طاقت کا استعمال ہے۔ پاکستانی حکومت اس سلسلے میں آخری حد تک جانے کا اعلان کرچکی ہے۔

اگر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکومت مستقبل قریب میں کوئی بڑی اچیومنٹ نہ کرسکی تو پاکستانی پبلک کے جذبات کا ملبہ پاکستانی حکومت اور با اختیار لوگوں پر گرے گا۔ اب بھارتی پبلک کے ردعمل کی بات کرتے ہیں۔ بھارت کے 5 اگست کے اقدام کے خلاف اُس کی اپنی پبلک میں اٹھنے والی چند آوازوں میں سب سے اہم فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسی وہ کشمیری قیادت ہے جو 1947 ء سے اب تک پاکستان پر بھارت کو ترجیح دیتی آئی ہے لیکن اِن دنوں بھارتی اقدام کے خلاف نظر آتی ہے۔

ایسی لیڈرشپ کے حوالے سے دو باتیں غور طلب ہیں۔ پہلی یہ کہ کیا فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی وغیرہ کی قیادت ”کشمیر بنے گا پاکستان“ جیسے نعرے کی حمایت شروع کردے گی؟ دوسرا یہ کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ مذکورہ بالا قیادت اپنی موجودہ نظربندیوں اور گرفتاریوں کے دوران دوبارہ سے بھارت کے موثر رابطوں میں آجائے اور رفتہ رفتہ اپنی کشمیری آبادی کو مختلف دلائل کے ساتھ کسی نئی گمراہی کی لائن پر لگا دے؟

آخر میں بین الاقوامی پبلک کے ردعمل کے ممکنہ نتیجے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی پبلک کی سرکاری سطح پر مظلوم کشمیریوں کے حوالے سے ہمدردی کا معاملہ کیا مشکوک بھی ہوسکتا ہے؟ بیشک موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے دو مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر ثالثی کی بات کی۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حوالے سے تیسرے فریق کی ثالثی پر کوئی اعتراض نہیں کرتا لیکن بھارت کو یہ قبول نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکی صدر ثالثی کرتے ہوئے پاکستان کو بھارت پر ترجیح دیں گے یا بھارت کو ناراض کرکے کشمیریوں کے حق کی بات کریں گے؟

اگر بھارت نے سفارتی چال چلتے ہوئے ٹرمپ کی ثالثی کو تسلیم کرلیا تو پاکستان کے پاس ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا مقصد حاصل کرنے کا کیا کوئی راستہ رہ جائے گا؟ ہوسکتا ہے اس ثالثی میں کچھ چھوڑ دو اور کچھ لے لو کی بات ہو۔ اگر ایسا ہوا تو کیا کشمیری اِسے قبول کرلیں گے؟ وہ کشمیری جو ڈوگرہ راج اور بھارتی فوجوں کے سامنے ایک صدی سے زائد سے آزادی کے لیے اپنی جان کے نذرانے پیش کرتے آئے ہیں کیا کچھ چھوڑ دو اور کچھ لے لو کی ثالثی کے سامنے بھی مزاحمتی تحریک شروع نہ کردیں گے؟

بین الاقوامی دوستی کا مطلب ہرملک کی اپنی مفاد پرستی ہوتی ہے۔ 5 اگست کے بعد یہ بات پاکستانی پبلک پر واضح ہوچکی ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بین الاقوامی ممالک بھارت کے ساتھ اپنے مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے سلسلے میں جو تھوڑی بہت سفارتی کامیابی ملی ہے کیا وہ پاکستانی حکومت کو کسی نئے ٹریپ میں لانے کا پیش خیمہ تو نہیں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).