گھوٹکی سانحہ اور ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت


گوکہ واقعہ کچھ پرانا ہو چکا ہے اور ہم پاکستانیوں کی یاداشت چند دن گزرے ظلم اور نا انصافی کو یاد رکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی خصوصاً جب اس کا تعلق مذہبی اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے ہو کہ ہمیں تفریح کے لیے نیا موضوع مل جاتا ہے۔ تاہم یہ واقعہ ایسا ہے کہ ہمیں اس پر آواز اٹھاتے رہنا ہے تاکہ ریاست کو اس مدعے کی حساسیت کا احساس ہوتا رہے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک ہندو استاد نوتن لال پر اس کا چودہ سالہ شاگرد توہین رسالت کا الزام لگاتا ہے۔ نوتن لال ریٹائرڈ پروفیسر ہیں اور عرصہ بیس سال سے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ نوتن لال اپنے شاگرد کو ناقص پڑھائی پر سزا دیتا ہے اور اس کی سرزنش کرتا ہے۔ بچہ گھر آکر اپنے والدین کو استاد کے رسولِ پاک کے متعلق توہین آمیز کلمات کہنے کا الزام لگاتا ہے جس کو سن کر اس کے خاندان کا خون کھول اٹھتا ہے اور پھر جہالت کے یہ جتھے تصدیق کیے بغیر ہی ہندو اقلیت پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

ان کے ساتھ بدنام زمانہ مذہبی پیشوا اور سیاسی رہنماء میاں مٹھو کے مریدین شامل ہو جاتے ہیں اور اگلے دو گھنٹوں میں ہندوؤں پر گھوٹکی شہر کی زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ 30 فیصد ہندو آبادی پر مشتمل یہ شہر قیامت صغری کا منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ مذہبی شرپسندوں کا ہجوم ہندوؤں کے گھروں پر چڑھ دوڑتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہندو اپنی دکانیں بند کرتے، مشتعل ہجوم ان کی دکانیں لوٹنا شروع کر دیتا ہے، جس کے ہاتھ جو لگ رہا ہے وہ سمیٹ رہا ہے۔ املاک کو آگ لگا دی گئی۔ گھوٹکی کے ہندو سہم گئے۔ جیسے قیامت ہی ٹوٹ پڑی ہو ان پر۔

سینکڑوں کی تعداد میں محمود غزنوی کے جانشین ہندوؤں کے مندروں پر حملہ آور ہوئے اور سب سے زیادہ نقصان شہر کے سب سے پرانے مندر کا ہوا جہاں بھگت کنور رام کی مورتی نصب ہے۔ بھگت کنور رام کی مورتی توڑ دی گئی۔ مندر کے غلے توڑ کر رقم چرائی گئی اور مندر میں موجود قیمتی سازو سامان سمیت مورتیوں کے کنگن اور قیمتی گہنے چرا لیے گئے۔ یہ توہین مذہب کی بدترین مثال تھی۔ ایک کہرام برپا تھا جس میں مسلمانوں نے کفار کو جی بھر کر لوٹا اور نیکیاں کمائیں!

سب سے زیادہ توڑ پھوڑ بھگت کنور رام کی مورتی کی کی گئی۔ بھگت کنور رام ہندوؤں کے مذہبی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ مقبول موسیقار اور گائک تھے۔ کنور رام نے بابا گرونانک سمیت خواجہ فرید، سورداس، تلسی داس اور بہت سے مسلم صوفیاء کا کلام گایا اور مسلم صوفیاء کی بہت تعزیم کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت سندھ میں مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر کنور رام نے بھائی چارے اور ہمدردی کو فروغ دیا۔

زیادہ تکلیف دہ امر ہمارے معاشرے میں اس رواج کا پروان چڑھنا ہے جس کے تحت بغیر تحقیق کے افواہ کو سن کر اس پر یقین کر لیا جاتا ہے۔ خصوصاً دین کے معاملے میں تو قطعی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ کسی پر لگے توہین مذہب کے الزام کو حتمی مان لیا جاتا ہے گویا جنت کمانے کا موقع مل گیا ہو۔ گھوٹکی میں ہندو برادری کے ساتھ کھیلے گئے اس بربریت کے کھیل سے پہلے کیا کسی عقل و شعور رکھنے والے مسلمان نے یہ تحقیق کرنے کی کوشش محسوس کی کہ چودہ سالہ بچے کے الزام میں کتنی صداقت ہے؟ اس الزام کے کیا محرکات ہو سکتے ہیں؟ کیا کلاس میں باقی بچوں کی رائے نہیں لینی چاہیے تھی؟ کیا باقی اساتذہ سے رائے لینا ضروری نا تھا؟

معروف کالم نگار حماد حسن کی کچھ سطور کا حوالہ دے رہا ہوں، حماد حسن کے بقول انھیں ہندو کونسل کے سرپرست اعلی اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کا فون آیا تو وہ بھرائی ہوئی آواز میں قرآن کی اس آیت کا حوالہ دینے لگے ”اگر کوئی تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو تاکہ تم بعد میں اپنے کیے پر نادم نا ہو۔“

یہاں ایک چودہ سالہ بچے نے الزام لگا کر استاد کی زندگی تباہ کر دی۔ پولیس نے نوتن لال کو بھی توہین رسالت کے الزام میں دفعہ 295 C کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔ محض شک کی بنیاد پر استاد پر مقدمہ قائم کرنے کا عمل بجائے خود تکلیف دہ ہے۔ ہماری جیلوں میں سالہاسال سے بیشمار افرد قید ہیں جنھیں توہین رسالت کے الزام کا سامنا ہے۔ کوئی جج ایسے مقدمات سننے کا حوصلہ نہیں کرتا اور نا کسی وکیل میں اتنی ہمت ہے کہ وہ توہین رسالت کے الزام میں قید کسی ملزم کا مقدمہ لڑ سکے۔ مشال خان، جنید حفیظ سمیت بہت سے ”نامور لوگ“ اس الزام کی زد میں آ کر مارے گئے یا زندگی برباد کروا بیٹھے۔ جنید حفیظ کا کیس لڑنے کے لیے کوئی وکیل راضی نا تھا اور جو واحد وکیل راضی ہوا اسے بھی اس کے آفس میں نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

ایسی صورتحال میں کون سا وکیل نوتن لال کا مقدمہ لڑے گا۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ پروفیسر نوتن لال کو کب تک قید میں رکھا جائے گا۔ مندروں کی بے حرمتی کا ازالہ کیسے کیا جائے گا اور ہندوؤں کی لوٹی گئی املاک کا ازالہ کون کرے گا۔ حیران کن طور پر ایسے کسی بھی مقدمے کو عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا اور رہائی پانے والوں کی اکثریت کو عدالت سے باہر قتل کر دیا گیا۔ گویا یہ سوچ کر لیا گیا ہے کہ جس پر محض الزام بھی لگ جائے اس کا مرنا طے ہے۔

اب چاہے وہ الزام ذاتی رنجش، لڑائی جھگڑے، کسی کاروباری یا سیاسی مفاد کی بنا پر لگایا گیا ہو۔ ایسی صورتحال میں اگر نوتن لال کو بے گناہ قرار دے بھی جاتا ہے تو کیا وہ ایک نارمل زندگی گزار سکتا کے؟ کیا اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گھوٹکی میں آزادانہ گھوم پھر سکتا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔

مذہبی معاملات میں عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ اس ملک میں محض الزام اور افواہ کی بنیاد پر اسلام فوراً خطرے میں آ جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف گروہ اپنے سیاسی و مالی مفادات کے لیے توہین مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ عوام ہی نہیں سیاسی نمائندے بشمول خادم حسین رضوی، عمران خان، طاہر القادری، سراج الحق سمیت فضل الرحمن سیاسی احیاء کے لیے اپنے سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالتے رہے ہیں۔ نیز درپردہ غیر جمہوری قوتیں بھی اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کی خاطر مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی کر کے حاکم وقت پر توہین مذہب کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ آج کل فضل الرحمن بھی اسلام آباد میں دھرنا دینے جا رہے ہیں اور ”تحفظ ناموس رسالت“ کے نام پر وہی غلطی دہرائے جا رہے ہیں۔

معروف کالم نگار اور سکالر خورشید ندیم اسلام کو درپیش نام نہاد خطرات سے متعلق لکھتے ہیں، ”جس ملک کی ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہو اور ان میں بھی کم و بیش نوے فیصد وہ لوگ ہوں جو اسلام کے نام پر جان دینے اور لینے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہوں۔ جس ملک کے متفقہ آئین میں درج ہو کہ اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے اور یہ کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ جس ملک میں بھٹو اور مشرف جیسے لبرل حکمران بھی شراب پر پابندی عائد کر دیں اور خواتین پر قانون سازی کرتے ہوئے روایتی علماء کو روشن خیال سکالرز پر ترجیح دیں، جس ملک میں عدلیہ اتنی بیدار مغز ہو کہ لبرل ازم کو دہشتگردی سے بڑا خطرہ سمجھتی ہو، جہاں حکومت دین کے بارے میں اتنی غیرت مند ہو کہ وزیر داخلہ سوشل میڈیا بند کرنے کا اعلان کرے۔ ایسے ملک میں اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔“

ضیا الحق کی اسلامائزیشن اور 1980، 1982 اور 1986 میں پاس ہونے والے صدارتی آرڈیننس کے بعد توہین مذہب کے قوانین کو اس قدر بے لچک اور سخت بنا دیا جس سے معاشرے میں مذہبی عدم برداشت بڑھی۔ تواتر کے ساتھ معصوم لوگ توہین مذہب کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں مرنے لگے اور مولوی صاحبان کی اکثریت نے اشتعال انگیزی کے ذریعے بپھرے ہجوم کو مزید پرتشدد بنایا۔ ایسے تمام دیندار طبقے اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں جو توہین مذہب کے کیس میں پورا ملک جام کر دیتے ہیں، عوام کی املاک جلاتے ہیں اور ریاست کو بے بس کر دیتے ہیں۔ یہی لوگ اس وقت منافقت کی تصویر بنے کھڑے ہوتے ہیں جب توہین مذہب کے الزام میں مارا جانے والا شخص بے قصور ثابت ہوتا ہے۔ حالانکہ اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ تمام مذہبی طبقات اس بے گناہ انسان کی موت کے لیے خود کو بھی ذمہ دار سمجھیں۔

افسوس آج مذہبی شدت پسندی کا یہ عفریت بے قابو ہو چکا ہے۔ آج اگر اس کا سدباب نا کیا گیا اور ریاست نے ذمہ داری نا نبھائی تو مذہبی اقلیتوں کے بعد ہم سب بھی ایک دن اس کا ترنوالہ بنیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم پاکستان عمران خان 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیریوں کا مقدمہ پیش کرنے جا رہے ہیں، تو اپنے ہی گھر میں اقلیتوں سے ناروا اور غیر مساوی سلوک نریندر مودی اور بی جے پی کے ہندو انتہاپسندوں کے خلاف پاکستان کا موقف کمزور کرے گا۔ دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).