کشمیر جنت بے نظیر‎


اس جنتِ ارضی کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے، اس کے پر امن باسیوں پر ان کی اپنی زمین تنگ کر دی گئی ہے، پر شکوہ سر سبز پہاڑ قید میں ہیں، آبشاریں، چشمیں، جھرنے قدرت کے انصاف پر نوحہ کناں ہیں۔ اس کے کھیت، پھول، سبزہ زار، بلند وادیاں اشک فشاں ہیں سامراج کی ان زنجیروں پر جن کی تکمیل میں لوہے کے ساتھ ساتھ معصوم و مجبور خون کی آمیزش بھی شامل ہے، سیاست کے دیوتاؤں کے قدموں میں خون کی ہولی سے قربانی پیش کی جاتی ہے، اناؤں کی تسکین کے لئے اس معبد کا ایندھن معصوم بچوں کی نوچی گئی آنکھیں ہیں، چھلنی بدن ہیں، کپکپاتے ہاتھ ہیں، سروں سے چھینی گئی ردائیں ہیں، بوڑھوں کے گمشدہ خواب اور جوانوں کا ابلتا مجبور و بے کس غم و غصہ ہے، شہیدوں کی ماؤں کی ان گنت طویل راتوں کی بے خوابی، سرد آہوں کے ساتھ ایک ایک اندوہناک نا ختم ہونے والی رات ہے۔

اس کلیسا کے پجاری عالمی سامراج کے وہ مہرے ہیں جن کی کاروباری اشتہا گولیوں کی تڑتڑاہت، دھماکوں کی آواز اور ٹینکوں کی پیش قدمی سے بڑھتی ہے۔ یہ عالمی مہرے بظاہر مذہبی اقدار کے علمبردار، انسانی حقوق کے رکھوالے ہیں اور امن کے داعی ہیں۔ در حقیقت یہ وہ خونخوار درندے ہیں کہ جن کی نحوست سے آج تک دنیا میں جنگیں ختم نا ہو سکیں، دنیا بھر کے ایوانِ اقتدار ان کی رسائی میں ہیں، حکومتیں بدلنا یا حاکم بدلنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

شام، عراق، مصر، یمن، لیبیا، فلسطین، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر ان کی مرغوب منڈیاں ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی بیرونی حل نا قابل عمل ہے، یہ صرف اور صرف کشمیریوں کی جدوجہد سے ہی آزاد ہو گا۔

مغرب یا اور کوئی بھی انسانی حقوق کے علمبردار ملک کشمیریوں کی مدد کو نہیں آئے گا۔ قطرہ قطرہ گرتا پانی تو پتھر میں بھی شگاف ڈال دیتا ہے، شاید قدرت ابھی کشمیریوں سے اور قربانی چاہتی ہے۔

آخر کشمیر میں ایسا کیا ہے کہ اس کی دو ہمسائیہ ایٹمی طاقتیں گزشتہ ستر سالوں سے باہم دست و گریباں ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جس کی دیوانگی نے نسلوں کو برباد کر دہا، ہزاروں جانوں کا نذرانہ لیا، عزتوں کو پامال کیا، وحشت، خوف، جبر اور جنون پیدا کیا۔

ایک پل کو سوچیں تو کیا کشمیر زمین کا ایک روایتی تنازعہ ہے یا یہ حق و باطل کی جنگ ہے، یا برطانوی افسر شاہی کا پیدا کردہ انتظامی مسئلہ پر ہمارے لئے جو بھی ہو اہم یہ ہے کہ کشمیریوں کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ ایک طرف ظلم ہے، سفاکیت ہے، ضد، انا اور تکبر ہے تو دوسری طرف عزم ہے، حوصلہ ہے، غم وغصہ ہے، بے چینی ہے، امید و نا امیدی کی آ میزش ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ بھارت، پاکستان اور کشمیریوں کی ایک ایسی مثلث بنا دی گئی ہے جس میں بھارت وہ فریق ہے جو حسبِ ضرورت اپنا زاویہ تبدیل کرتا رہتا ہے تا کہ کسی صورت بھی یہ مثلث حل نہ ہو سکے۔

کشمیری 150 سال سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن احتجاج کی شدت اور زمینی حالات بتاتے ہیں کہ بھارت اب زیادہ دیر قبضہ برقرار نہیں رکھ پائے گا۔

تشدد کی حالیہ لہر میں اب جبکہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو 50 دن ہونے کو ہیں، مسلم دنیا کے اہم ملکوں سمیت مغرب کی مجرمانہ خاموشی بتاتی ہے کہ آ ج کی دنیا کی اساس اصولوں کے بجائے کاروباری ترجیحات پہ مبنی ہے۔

ہمارے لئے یہ ایک لمحہء فکریہ ہے کہ جس امتِ مسلمہ کا ہم صبح شام راگ الاپتے ہیں اس کے علمبردار ممالک کشمیر اور گجرات کے مسلمانوں کے قاتل مودی کو قومی ایوارڈز سے نواز رہے ہیں، حیرت انگیز طور پہ ان ملکوں میں فلسطین بھی شامل ہے جس کی حمایت میں ہم نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہں کیا۔ ہماری خارجہ پالیسی بھی اب جذبات کے بجائے ملکی مفاد پر مبنی ہونی چاہیے۔ کشمیر کو اقوامِ عالم میں مسلمانوں کے مسئلے کے بجائے انسانی مسئلے کے طور پہ اجاگر کرنا یقیناً زیادہ پر اثر ہو گا۔

90000 کشمیریوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، وہ صبح ضرور طلوع ہو گی جس کی چاہ میں چار نسلیں گزر گئیں۔

چناروں کی سرزمین تیار ہے، باطل چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نا ہو اس کی قسمت میں ذلت آمیز شکست لکھی جا چکی ہے۔ آزادی کے متوالوں کو اب دبانا مشکل ہے، اب دیواریں گرنے کو ہیں، اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں اور ممالک کو جھنجھوڑنا بیکار ہے کیونکہ مقبوضہ وادی میں چھائی وحشت ناک خاموشی ثبوت ہے کہ ”عالمی ضمیر سو رہا ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).