کونو کارپس بھی نواز شریف ہے


نواز شریف لاہور کے کشمیری بٹوں کا لڑکا ہے۔ تین دفعہ مُلک کا حُکمران رہا۔ تینوں دفعہ مُدت پُوری نہ کر سکا۔ آئین کے دائرے کی رٹ لگاتا ہے۔ سائیں لوگوں نے سمجھایا بھی، دیکھ چھورے ہمیں چوکور، مثلث، دائرے شائرے کا سبق نہ پڑھا۔ مگر چھورا سٹھیا گیا، نہ باز آیا۔ آج کل دائرے سے باہر کوٹ لکھپت جیل میں ہوتا ہے۔ آخری دفعہ 2013 میں حکُومت میں آیا۔ ابھی ہاتھوں کی مہندی خُشک نہ ہوئی تھی کہ اُس کے خلاف دھرنے شُروع ہو گئے۔ ایک بابا کینیڈا سے دھرنا دینے آیا۔ ایک بابا مقامی تھا۔ چار حلقے، چودہ قتل، مُلک لُٹ گیا۔ عوام پِٹ گئے یہ ایجنڈے تھے۔ ٹی وی چینلزحکُومت پہ خُوب گرجے۔

بولانی، اروانی، نائن ٹوانی، الغرض حکُومت نہ ہوئی کِسی لڑکی کو چھیڑتا نووارد چھوکرا ہو گیا، جس کا بس چلا ٹُھڈا مارا، رگید ڈالا، جس کا نہ چلا گالی نکالی۔

اینکرز روزانہ رات کو حکُومت گِرا کر سوتے وہ صُبح دوبارہ موجُود ہوتی۔

گویا حکُومت بھی یاجوج ماجوج والی فصیل ذوالقرنینی ہوگئی!

حکُومت بچ گئی۔ کاروبارِ زندگی چل نکلا۔ چینلوں کی قد بڑھاتی ریٹنگ پستہ قامتی کی طرف چل پڑی۔ بابا جی کینیڈا سُدھار گئے۔ مگر گیم پھر خراب ہو گئی۔ پانامہ والا جھنجھنا کھلاڑیوں کے ہاتھ لگ گیا۔ اور انہوں نے اسے اتنا بجایا اتنا بجایا کہ نواز شریف اڈیالہ سے ہوتا کوٹ لکھپت جا پڑا۔

ججز کے سیسیلئین مافیا، گاڈ فادر تبصرے تھے۔ نیب کے انڈیا ڈالرز پیسے منتقلی کے الزامات تھے۔ مُودی کا یار نواز کا ٹیگ تھا۔ خان صاحب کے نواز خاندان کی طرف سے دس ارب رشوت کے دعوے تھے۔ ٹی وی اینکرز کی تُھوک اُڑاتی سنسنی خیز رپورٹنگ تھی۔ صابروں، بھٹیوں رشیدیُوں، لُقمانیوں، پیرزادوں، مسعودیوں کی پرچُون دُکانیں تھیں۔ صفحات لہرائے جاتے تھے۔ یہ مِل گئے ثبُوت۔ یہ آگیا نیا سکینڈل۔ یہ ایک سُراغ اور ہاتھ لگ گیا۔

سوشل میڈیا کے دیہاڑی دار کبڑے کوڈے بابے تھے۔ حقائق سے نابلد جوان نسل کا فیس بُک پہ شئیر بٹن پہ ہاتھ تھا۔

الزامات کی مُوسلا دھار بارش میں بھیگتی جدی پُشتی ضعیف الاعتقاد ہم عوام کا یقینِ کامل تھا۔ !

القصہ نواز شریف خاندان سمیت مطعُون ٹھہرا۔ بیوی تہہ خاک چلی گئی۔ ُخود بیٹی سمیت پسِ زنداں چلا گیا۔ الزامات کا ریلا تھا۔ بہہ نکلا۔ اور سبھی عزیزانِ وطن مرد و زن کچھ نئے کے چکر میں اس کے ساتھ ساتھ ہو لیے۔ الزامات کے گھن چکر میں چکر کتنے من تھا اور صداقت کتنے کِلو تھی۔ نہیں معلُوم!

آنکھوں پہ کھوپے چڑھائے ہم ہیں کولہو کے بیل!

اور ہواؤں کے دوش پہ اُڑتے آوارہ و ناکارہ شاپر!

تحقیق نہ کبھی ہمارا شعار رہی اور شاید نہ آئندہ کبھی ہو۔

یہ تحریر میاں نواز شریف کے لیے نہیں ہے۔ اُس اسیرِ زلیخا کا ذکر تو ضمناً آگیا۔ بلکہ یہ کونو کارپس کے لیے مخصُوص ہے۔ کونو کارپس رُسوائے زمانہ پودا ہے۔ یہ دیسی نہیں بدیسی ہے۔ مُصطفٰی کمال سابق مئیر کراچی اسے کراچی لایا۔ اُس دور میں اس نسل کے بائیس لاکھ پودے درآمد کیے گئے۔ مکمل بالغ ہونے کے بعد اس کا قد بیس میٹر تک پُہنچ جاتا ہے۔ یہ پودا آج کل عوامی عتاب کا شکار ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں رنگ برنگے الزامات!

کوئی آواز لگاتا ہے کونو نہ لگاؤ یہ سعودی عرب میں بین ہو گیا ہے۔ کوئی دھتکارتا ہے کہ یہ بدبخت پودا ہے، پرندوں کو گھونسلہ نہیں بنانے دیتا۔ کوئی سالا کہتا ہے کہ یہ خُشک سالی لاتا ہے۔ کوئی دانش ور مُعترض ہے کہ اسے جانور نہیں کھاتے۔ کوئی ارسطُو دانش بگھارتا ہے کہ یہ پولن دانے چھوڑتا ہے۔ اور کُچھ بقراطی ایسی دُر فنطنی چھوڑتے ہیں کہ علمِ نباتات کے بانیُوں کے کلبُوت قبروں میں کروٹیں بدلتے رہ جاتے ہیں۔ دُرفنطنی ملاخطہ فرمائیں، یہ پودا کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑتا ہے اور فضا سے آکسیجن استعمال کرتا ہے۔ پچھلے سال جماعتِ اسلامی کے ایک کراچوی بھگت نے اِس بے زُبان مخلُوق کے خلاف پُورا پرچہ شائع کر دیا جِس میں یہ سارے الزامت بیک وقت عائد کر دیے۔

بعد ازاں میڈیا کی طرف سے اس بابت دلائل مانگنے پہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ آپ بھی تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کسی کونو مُخالف سے پوچھ لیں کہ بھایا، کوئی مُستند تحقیق، حوالہ، تھیسز!

آپ کو آواگونی گُفتگو تو مِلے گی مگر کوئی تسلی بخش جواب کبھی نہیں مِلے گا۔

بندہ ناچیز پچھلے چند سالوں سے شجر کاری کا شائق ہے۔

میری ذاتی تحقِیق کے مُطابق اس پودے پہ لگائے گئے بیشتر الزامات سوائے جھوٹ اور بہتان کے اور کّچھ نہیں۔ اس پودے پہ پرندے بیٹھتے ہیں۔ گھونسلے بناتے ہیں۔ شہد کی مکھیاں چھتے بناتی ہیں۔ اسے جانور کھاتے بھی ہیں۔ اکیلا یہ پودا ہی پولن خارج نہیں کرتا بلکہ ہر پودا ہی پولنز خارج کرتا ہے۔ اور یہ کسی پودے کا عیب نہیں بلکہ افزائش نسل کے لیے لازمی حصہ ہے۔ اور ہر پودا جس عمل سے اپنی خوراک بناتا ہے اس کے لیے فوٹو سنتھیسز کا عمل ہے۔

اس عمل کے لیے روشنی، پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ لازمی حصہ ہیں۔ اس عمل میں خوراک کے ساتھ آکسیجن ایک زائد جُز کے طور پہ پیدا ہوتی ہے جِسے پودا ہوا میں خارج کر دیتا ہے۔ جِسے ہر ذی رُوح استعمال کرتا ہے تاکہ سانسوں کا سلسلہ چلتا رہے۔ رہی بات متحدہ عرب امارات یا دُوسرے عرب مُمالک میں اس پہ پابندی کی تو اُس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ان مُمالک نے اس پودے پہ مُکمل پابندی نہیں لگائی بلکہ شہری علاقوں میں مزید اُگانے پہ پابندی لگائی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پودے کی جڑیں بہت ڈھیٹ ہیں۔ عام پودوں کے برعکس کسی سخت رکاوٹ سے ٹکرا کر اپنا راستہ بدلنے کی بجائے یہ زور آزمائی کر کے مقابل رکاوٹ کو توڑ پھوڑ دیتی ہیں۔ جس وجہ سے عرب ممالک میں عمارات اور پائپ لائنوں کو شدید نُقصان پہنچا۔ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں اس پودے کے خلاف زور وشور سے چلنے والی مُہم کے پیچھے کراچی کے محکمہ بلدیہ کے ملازمین، اور ٹمبر مافیا کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے تاکہ کسی انتہائی حکومتی ایکشن کی صُورت میں بڑے پیمانے پہ لکڑی حاصل کرنے کا موقع ملے۔

اس میں مبینہ طور پہ ایک نجی ٹی وی چینل بھی ملوث ہے۔ جس نے بلا تحقیق اس پودے کے خلاف رپورٹنگ کی۔ ایک لمحے کے لیے اس پودے پہ لگے کچھ الزامات کو سچ مان بھی لیا جائے، تب بھی ماحول کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے آکسیجن دینے کا عمل باقی تمام الزامات پہ فوقیت رکھتا ہے۔ دُوسری طرف شجرکاری کے شوقین حضرات، اس پودے سے متعلق شدید جذباتی واقع ہُوئے ہیں۔ ہم میں سے تقریباً ہر شخص نے دیکھا ہو گا کہ سرکاری عمارتوں، سڑکوں، فُٹ پاتھوں پہ نظر ہی یہ پودا آتا ہے۔

شاید اس لیے کہ یہ تیز رو ہے اور سخت جان ہے۔ مگر یہ شجر کاری کے عالمی اُصُول کے خلاف ہے۔ جس کے مُطابق کسی جگہ پہ پودے لگاتے وقت پودے کی کوئی بھی قِسم دس فیصد سے زیادہ نہ لگائی جائے۔ کیونکہ مُستقبل میں کسی بھی وائرل اٹیک کی صُورت میں اس پودے کی ساری کھیپ مر سکتی ہے۔ جس سے اُس علاقے کا ماحولیاتی توازن بُری طرح مُتاثر ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).