کیا لاہور میں مینڈک عوام کو کھلائے جا رہے تھے؟


گزشتہ چند روز سے لاہور میں دو رکشہ سواروں سے پانچ من مینڈک پکڑے جانے کے بعد یہ خبریں پھیلی ہوئی تھیں کہ ان مینڈکوں کو لاہور کے ریستورانوں میں چکن اور دوسرے گوشت میں ملا کر شہریوں کو کھلایا جاتا ہے۔ خاص طور پر برگر اور شوارما میں ان کے گوشت کی موجودگی کا بتایا جا رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس کی وجہ سے بہت زیادہ مذاق بھی چل رہا تھا اور ایک خوف اور کراہت کی فضا بھی قائم تھی۔ جی این این کے اینکر پرسن اور صحافی محسن بھٹی نے اس معاملے پر تحقیق کی ہے کہ یہ مینڈک کہاں لے جا رہے تھے اور ان کا استعمال کس طرح سے کیا جانا تھا۔

محسن بھٹی نے سوشل میڈیا پر اس معاملے پر اپنی پوسٹ میں مفصل روشنی ڈالی ہے۔ ان کی پوسٹ مندرجہ ذیل ہے:


یہ جو آج کل ہر طرف مینڈکوں کی مختلف ڈشز کی تصویریں شیئر کی جا رہی ہیں۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے، پلیز بغیر کسی ثبوت کے بلاوجہ سنسنی پھیلانے سے گریز کریں۔ کیونکہ مجاہد سکواڈ نے جن اشخاص کو ان مینڈکوں کے تھیلے سمیت پکڑا تھا، ان افراد کو مکمل تفتیش کے بعد بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ لوگ مختلف میڈیکل کالجز کو تجربات کے لئے مینڈک سپلائی کرتے تھے، اور ان کے پاس سے باقاعدہ ان کالجز کے لیٹر بھی برآمد ہوئے۔ اور ان کالجز سے تصدیق بھی کی گئی۔

جبکہ یہ بات تو آپ سب کے علم میں ہے کہ میڈیکل کالجز میں مینڈکوں کی ہی Dissection کی جاتی ہے۔

اب اس سارے واقعے کو مختلف حقائق کی روشنی میں پرکھتے ہیں :

پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کی مقدار بہت تھوڑی سی تھی، پانچ من تو بالکل بھی نہیں تھی۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ مجھے لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بہت سے چھوٹے بڑے ریسٹورینٹس کی انسپیکشن کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے، مگر مجھے آج تک اس بات کا کہیں سے بھی کوئی سراغ نہیں ملا

اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم جب کسی بھی ریسٹورنٹ میں جاتے ہیں تو ہمیں ان کی جو بھی ڈشز پسند ہوتی ہیں تو ہمیں ہر بار ان کا ایک ہی ذائقہ ملتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے گاہکوں کے Taste Buds کے مطابق ایک خاص ذائقہ ڈیویلپ کیا اور پھر اس کی مکمل ترکیب کو لاک کر دیا جاتا ہے کہ اس میں کون کون سے اجزاء کس مقدار میں ڈالے جائیں گے، پھر چاہے ان کے شیف تبدیل بھی ہوتے رہیں تب بھی اس کے ذائقے میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اسی وجہ سے وہ لوگ اپنے اجزائے ترکیبی میں معمولی سا فرق بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔

جبکہ مینڈک یا اس طرح کے دوسرے اجزاء کی سپلائی ریگولر بنیادوں پر ممکن نہیں ہوتی، کہ روزانہ اتنے من یا اتنے کلوگرام مینڈک روزانہ سپلائی کیے جائیں، یہ اس لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ اس کی کون سا کمرشل فارمنگ ہوتی ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو زیادہ تر مینڈک پائے جاتے ہیں، وہ سائز میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں جس وجہ سے بہت سے مینڈک ملا کر بھی گوشت کی معمولی سی مقدار ہی حاصل ہو پائے گی۔

جو شخص اتنی محنت کر کے بڑی بھی ہمت کر لے تو وہ کئی دن لگا کر سو یا حد 200 مینڈک پکڑ لے گا جس سے بمشکل 4 یا 5 کلو سے زیادہ گوشت نہیں نکلے گا، تو وہ اسے 400 یا 500 روپے کلوگرام سے کم کیا بیچے گا، جبکہ ریسٹورینٹس کو مرغی اس سے سستی مل جاتی ہے، تو وہ یہ مینڈک کیوں خریدیں گے۔ اور بیچنے والے کا بھی اس میں incentive بہت کم ہے۔

یعنی قصہ مختصر یہ Commercially viable بھی نہیں ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ فوڈ کے شعبے میں میرا اپنا ایک انٹیلیجنس نیٹ ورک ہے، اگر اس طرح کی کہیں پر کوئی بھی کارروائی ہو رہی ہو تو مجھے اس کی اطلاعات پہنچ جایا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ آپ کی طرح الحمدللہ پورے پاکستان سے بہت لوگ مجھ سے پیار کرتے ہیں اور اعتماد کرتے ہیں، تو وہ بھی مجھے معلومات بھیجتے رہتے ہیں اگر ان کے اردگرد کوئی ایسا وقوعہ رونما ہوا ہو۔ لیکن مجھے الحمدللہ کہیں سے بھی ایسے چن چڑھنے کی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی ہے۔

اس لئے برائے مہربانی اس طرح کی افواہوں پر کان مت دھریں
آپ کا خیر اندیش
محسن بھٹی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).