فیصل آباد: بچوں سے جنسی زیادتی اور بلیک میلنگ، گرفتار ملزمان کی عمریں 14 سے 21 برس کے درمیان


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل سمندری کے ایک ہی گاؤں سے کم از کم چار افراد اپنے کمسن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی شکایات لے کر پولیس کے پاس پہنچے ہیں۔

شکایات کے مطابق 14 سے 17 برس کی عمر کے بچوں کے ساتھ ’زبردستی بد فعلی کا سلسلہ کم از کم گزشتہ دو سال سے جاری تھا اور ان کی ویڈیوز بنا کر انھیں بلیک میل کیا جا رہا تھا۔‘

فیصل آباد پولیس کو خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہیں کیونکہ اب تک لوگ بدنامی کے خوف سے سامنے نہیں آ رہے۔

تاہم فیصل آباد پولیس کے شعبہ تحقیقات کے سربراہ سینیئر سپرینٹنڈنٹ آف پولیس انویسٹیگیشن ندیم رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کو اب تک موصول ہونے والی شکایات میں جن پانچ ملزمان کی نشاندہی کی گئی تھی انھیں گرفتار کیا جا چکا ہے اور ان سے پوچھ گچھ بھی جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

زینب کیس: کیا قصور میں اب بچے محفوظ ہیں؟

چونیاں قتل: کیا ڈی این اے پولیس کو ملزم تک پہنچا سکتا ہے؟

جنسی زیادتی: پشاور کے سکول پرنسپل کو 105 سال قید

پولیس کے مطابق یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ جو افراد کسی بھی قسم کے خوف کی وجہ سے سامنے نہیں آ رہے انھیں تحفظ کا احساس دلایا جائے تاکہ ایسے افراد کی صحیح تعداد معلوم ہو پائے جنھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

واضح رہے کہ چند مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ دعوٰی کیا گیا تھا کہ جنسی زیادتی اور ویڈیوز کے ذریعے بلیک میلنگ کا نشانہ بننے والوں کی تعداد 30 کے قریب ہو سکتی ہے۔

ایس ایس پی ندیم رضا کے مطابق تاحال ان اعدادوشمار کی تصدیق ممکن نہیں۔

بچوں سے زیادتی

فائل فوٹو

واقعات کیسے سامنے آئے؟

تحصیل سمندری کے گاؤں چک نمبر 222 گ ب میں پیش آنے والے واقعات پر پیر کے روز تک ضلع فیصل آباد کے تھانہ ترکھانی میں چار مقدمات درج کیے جا چکے تھے۔ چاروں مقدمات میں ایک ہی مرکزی ملزم اور اس کے چار ساتھیوں پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ایس ایس پی ندیم رضا کے مطابق زیادتی کے واقعات رواں ماہ اس وقت سامنے آئے جب نشانہ بننے والے ایک 10 سالہ کمسن لڑکے کے چچا نے پولیس سے رجوع کیا اور باقاعدہ شکایت درج کروائی۔

تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ بچوں سے زیادتی کرنے والے مبینہ گروہ کا وہ اکیلا شکار نہیں تھا۔ تاہم باقی بچوں کے لواحقین بدنامی کے ڈر سے سامنے آنے اور پولیس میں رپورٹ کروانے سے کترا رہے تھے۔

ایس ایس پی انویسٹیگیشن ندیم رضا کے مطابق مزید لوگوں کو تحفظ کی یقین دہانی کروائی گئی جس کے بعد تین مزید شکایات پولیس کو گزشتہ چند روز میں موصول ہوئی ہیں۔

’زیادتی کا نشانہ بننے والے اور ملزمان تقریباً ہم عمر‘

ترکھانی پولیس سٹیشن میں درج ایف آئی آر کے مطابق 10 سالہ لڑکے کے چچا جو کہ سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے تھے، نے پولیس کو بتایا کہ چند روز قبل ان کا بھتیجا گھر سے لاپتہ ہو گیا جسے تلاش کرنے پر وہ گاؤں ہی میں واقع مرکزی ملزم کی بیٹھک سے ملا۔

انھوں نے پولیس کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ ان کے بھتیجے کو ایک سے زیادہ افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ملزمان نے زیادتی کرتے وقت بچے کی ویڈیو بھی بنائی اور اسے دھمکی دی کہ کسی کو بتانے کی صورت میں ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی جائے گی۔

ترکھانی پولیس کو موصول ہونے والی باقی تینوں شکایات کا متن بھی لگ بھگ ایک جیسا ہے۔ چاروں مقدمات میں بچوں کے لواحقین نے پولیس کو بتایا ہے کہ بچوں کو مرکزی ملزم کی بیٹھک پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

زیادتی کا نشانہ بننے والے باقی تینوں لڑکوں کی عمریں بتدریج 14، 15 اور 17 برس ہیں۔

ایس ایس پی انویشٹیگیشن ندیم رضا کے مطابق زیادتی کا نشانہ بننے والوں اور ملزمان کی عمریں لگ بھگ برابر ہیں۔ملزمان میں شامل افراد بھی 14 برس سے لے کر 21 برس تک ہیں۔

موبائل

ویڈیو کے پچاس ہزار روپے دیے۔۔۔

چاروں مقدمات میں مدعیان نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنائی گئیں اور اس طری انھیں بلیک میل کر کے بار بار زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

ایک شخص نے پولیس کو بتایا کہ حال ہی میں مرکزی ملزم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کے گھر پر آیا اور ان کے 17 سالہ بیٹے کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو واپس کرنے کے عوض ڈیڑھ لاکھ روپے مانگے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے گواہان کی موجودگی میں منت سماجت کر کے 50 ہزار روپے دے دیے۔

تاہم ملزمان نے ویڈیو ان کے حوالے نہیں کی بلکہ مزید رقم کا مطالبہ کر رہے تھے۔

انھوں نے پولیس کو دی جانے والی درخواست میں خدشے کا اظہار کیا کہ ’ملزمان نے ان کے بیٹے کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو کسی ویب سائٹ کو فروخت کر دی ہے۔‘

پولیس کو موصول ہونے والی تمام درخواستوں میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ ملزمان سے ویڈیوز برآمد کروائی جائیں۔

ویڈیوز کیسے برآمد ہوں گی؟

ایس ایس پی انویشٹیگیشن ندیم رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمان کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے موبائل فون قبضے میں لے لیے گئے ہیں جنھیں فرانزک تجزیے کے لیے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور بھجوایا جائے گا۔

’ملزمان نے وہ ویڈیوز اپنے موبائل فونز سے ڈیلیٹ کر دی ہوں گی، اس لیے ان کے موبائل فونز کو فرانزک تجزیے کے لیے بھجوایا جائے گا تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان ویڈیوز کی نوعیت کیا تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تاحال اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ ملزمان نے ان ویڈیوز کو انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر پھیلایا ہو۔ تاہم کم از کم ایک شکایت کنندہ نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے جب 10 سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کرتے وقت ملزمان کو پکڑا تو ان کے ہاتھ میں موبائل فون تھا۔

بچے کب سے زیادتی کا نشانہ بن رہے تھے؟

17 سالہ لڑکے کے والد نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بیٹے کے مطابق ملزمان ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کر کے گزشتہ دو برس سے اسے مسلسل زیادتی کا نشانہ بنا رہے تھے۔

’ملزمان اسے ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالنے اور قتل کی دھمکیاں دیں تھیں۔‘

ایک 14 سالہ بچے کے والد نے پولیس کو بتایا کہ بچے کے مطابق ملزمان گزشتہ تقریباً ایک برس سے ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کر کے اسے مسلسل زیادتی کا نشانہ بنا رہے تھے۔

چار میں سے تین مقدمات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان بچوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ زیادتی کا نشانہ بنا چکے ہیں اور یہ سلسلہ کم از کم دو برس سے جاری تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان سے مزید تفتیش جاری ہے اور اگر اس حوالے سے مزید شکایات موصول ہوئیں تو ان کو بھی تحقیقات کا حصہ بنایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32468 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp