عمران خان کا دورہ امریکہ: نیویارک کا روزویلٹ ہوٹل اور پاکستانی حکمران


روز ویلٹ ہوٹل نیویارک

Roosevelt Hotel

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے نیویارک میں سات دن قیام کے لیے تبدیلی اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کو ترک کرنے کے انتخابی نعروں سے اقتدار میں آنے والے عمران خان نے روزویلٹ ہوٹل کا انتخاب کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے پیش رو نواز شریف نے کبھی روزویلٹ ہوٹل میں ٹھہرنا پسند نہیں کیا تھا جو پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی ملکیت ہے۔ وہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے جب بھی نیویارک گئے ہیں انھوں نے والڈورف اسٹوریا یا نیو یارک پیلس کا ہی انتخاب کیا۔

پاکستانی رہنماؤں کے دوروں کے دوران ہمیشہ ہی صحافیوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے میڈیا سینٹر روزویلٹ ہوٹل میں بنائے جاتے رہے ہیں۔

مہنگے ترین ہوٹلوں کے انتخاب پر ماضی کے حکمرانوں کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا کہ کیونکہ ان ہوٹلوں میں دیگر ملکوں کے سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت قیام کرتے ہیں تو ان سے ملاقاتیں طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی اگلے سات دنوں میں تمام اہم ملاقاتیں اسی ہوٹل میں ہونا طے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

عمران اور مودی ٹائٹینک فلم سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

’پاکستان، انڈیا مسئلہ کشمیر پر مل کر اختلافات دور کریں‘

’ایسے لوگوں کو بھی مسئلہ ہے جن سے اپنا ملک نہیں سنبھلتا‘

روزویلٹ ہوٹل کی مختصر تاریخ

نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کے قیام کو ایک صدی ہو گئی ہے۔ اس کا افتتاح 23 ستمبر سنہ 1924 میں ہوا تھا۔ امریکی صدر تھیوڈر روزویلٹ کے نام پر بنائے گئے اس ہوٹل کی تعمیر پر اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر رقم سرف ہوئی تھی۔ یہ ہوٹل ایک خفیہ زیرِ زمین راستے سے نیویارک کے گرینڈ سینٹرل سٹیشن سے بھی جڑا ہوا تھا۔

روزویلٹ ہوٹل دنیا بھر میں وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے اپنے مہمانوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چائلڈ کیئر اور پالتو جانوروں کے لیے بھی خصوصی سروس مہیا کرنا شروع کی تھی۔ اس کے علاوہ 1947 میں روزویلٹ وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے کمروں میں ٹیلی وژن سیٹ مہیا کیے۔

کونریڈ ہلٹن نے 1943 میں یہ ہوٹل خرید لیا۔ کونریڈ ہلٹن بعد میں والڈورف ایسٹوریا اور دی پلازہ جیسے اعلی معیار کے ہوٹلوں کے مالک بھی بن گئے لیکن انھوں نے اپنا قیام روزویلٹ ہوٹل کے صدارتی سوئٹ میں ہی رکھا۔

لیڈر

روز ویلٹ ہوٹل میں کون کون ٹھہر چکا ہے؟

سنہ 2015 میں جب نواز شریف نیویارک تشریف لے گئے تو اس وقت بھی انھوں نے ویلڈورف اسٹوریا کا ہی انتخاب کیا تھا جب کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ بھی اس ہوٹل میں مقیم تھے۔

جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کو اتنے مہنگے ہوٹلوں میں قیام پر امریکی صحافی اکثر حیران ہوا کرتے تھے۔

سنہ 2008 میں صدر آصف علی زرداری جب نیویارک گئے تھے تو وہ روز ویلٹ ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور ان کے قیام کے لیے ہوٹل کا صدارتی سوئٹ بک کرایا گیا جس کا ایک رات کا کرایہ چھ ہزار ڈالر یومیہ تھا۔

اس سے قبل سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے اکتوبر سنہ 2006 میں امریکہ کے دورے کے دوران نیویارک میں اس ہوٹل کا انتخاب کیا تھا۔ صدر مشرف کا یہ دورہ اخراجات کے اعتبار سے مہنگا ترین دورہ تھا۔

اس زمانے کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق صدر مشرف کے قیام کے دوران پاکستان سفارت خانے نے 28 لیموزینز کرائے پر حاصل کی تھیں جن کا کرایہ لاکھوں ڈالر میں ادا کرنا پڑا تھا۔

صدر مشرف اکتوبر سنہ 2001 میں بھی اپنے امریکی دورے کے دوران اسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔

پی آئی اے کی ملکیت

سنہ 1979 میں پی آئی اے نے سعودی عرب کے شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ مل کر اس کو لیز پر حاصل کر لیا۔ اس لیز کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ بیس برس بعد اگر پی آئی اے چاہے تو اس ہوٹل کی عمارت بھی خرید سکتی ہے۔

سنہ 1999 میں پی آئی اے نے اس شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل کی عمارت کو تین کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر میں خرید لیا۔ پی آئی اے کو ہوٹل کی عمارت خریدنے سے پہلے ہوٹل کے اسوقت کے مالک پال ملسٹین کے ساتھ ایک طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی۔

پال ملسٹین کا خیال تھا کہ ہوٹل کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے قبل سنہ 2005 میں پی آئی اے نے سعودی پرنس کے ساتھ ایک سودے میں روزویلٹ کے 99 فیصد شئیر خرید لیے اور سعودی شہزادے کے پاس صرف ایک فیصد شیئر ہی رہ گئے۔

سنہ 2007 میں پی آئی اے نے ہوٹل کی مرمت اور از سر نو تزئین و آرائش کا کام شروع کیا جس پر چھ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کا خرچہ آیا۔ اس کے بعد پی آئی اے نے اپنے مالی خصاروں کو پورا کرنے کے ہوٹل کو بچنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا لیکن بعد میں یہ فیصلہ ترک کر دیا گیا۔

روز ویلٹ ہوٹل نیویارک کے مرکز مینہیٹن کی 45ویں اور 46 ویں کے درمیان واقع ہے جو نیویارک کے گرینڈ سنٹرل سٹیشن سے صرف ایک بلاک دور ہے۔ یہاں سے ٹائمز سکوائر اور براڈ وے جانے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp