تقسیم ہند: کیا انڈیا سے آئے جونا گڑھ کے رہائشیوں کو پاکستان کی شہریت مل سکتی ہے؟


پیر کے روز سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شمس الدین عباسی پر مشتمل ڈویزن بینچ کے روبرو ایک ایسی درخواست کی سماعت ہوئی جس میں جونا گڑھ کے ایک رہائشی نے پاکستان کی شہریت نہ ملنے کی شکایت کی۔

درخواست گزار چھوٹو میاں کے مطابق ان کا چار افراد پر مشتمل خاندان سنہ 2007 میں پاکستان منتقل ہوا تھا تاہم انھیں پاکستان کی شہریت نہیں دی گئی۔

درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ جونا گڑھ کے نواب نے پاکستان سے الحاق کیا تھا لہذا جونا گڑھ کے رہائشی پاکستان کے شہری ہیں۔

تقسیمِ ہند کے وقت برصغیر میں ایسی کئی ریاستیں تھیں جہاں نوابوں کی حکومتیں تھیں۔ ایسی ہی ایک ریاست گجرات کے جنوب مغربی ساحلی خطے میں واقع جونا گڑھ تھی۔

اس ریاست کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی لیکن ریاست کے نواب نے پاکستان میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ آزادی کے چند مہینے بعد اس ریاست کو باضابطہ طور پر انڈیا میں ضم کر لیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

‘بھٹو صاحب جوناگڑھ کو پاکستان لے گئے‘

‘پاکستان چھوڑنا ایسا ہے جیسے اپنے ملک سے جانا ہو‘

پاکستانی ہندوؤں کی شہریت پر سیاسی رسہ کشی

تو اب ریاست جونا گڑھ کے شہریوں کی حیثیت کیا ہے، اور کیا انھیں پاکستان کی شہریت دی جاسکتی ہے؟

سندھ ہائی کورٹ نے اس سارے معاملے پر حکومتِ پاکستان سے مؤقف طلب کر لیا ہے۔

چھوٹو میاں کے وکیل ایڈووکیٹ سید سکندر نے بی بی سی کو بتایا کہ قیام پاکستان سے جونا گڑھ کے لوگ پاکستان منتقل ہوتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست پاکستان انھیں شہریت دینے کی پابند ہے لیکن کچھ عرصے سے چونکہ یہ سلسلہ رک گیا تھا، اس لیے حکام کو معلوم نہیں۔‘

’نہ سرکاری وکیل کو یہ معلوم ہے کہ نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کیا تھا اور نہ جج صاحبان کو۔ اس لیے عدالت نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے مؤقف طلب کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔‘

ایڈووکیٹ سید سکندر کے مطابق جونا گڑھ پر قیام پاکستان کے دو ماہ کے بعد انڈیا نے قبضہ کرلیا تھا جس کے خلاف پاکستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کر رکھا ہے۔

اس بارے میں انھوں نے آئین کے آرٹیکل 2 ڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دستور پاکستان بھی جونا گڑھ کے شہریوں کو پاکستانی شہریت کا حق دیتا ہے۔

دستور پاکستان کی اس شق کے تحت یہ تب لاگو ہو گا جب ایسی ریاستیں اور علاقے جو الحاق کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے پاکستان میں شامل ہیں یا ہو جائیں۔

جبکہ اگلی شق میں مجلس شوریٰ بذریعہ قانون وفاق میں نئی ریاستوں یا علاقوں کو اس شرط پر شامل کر سکتی ہے جن کو وہ مناسب سمجھے۔ تاہم اس سے پہلے والی شق میں پاکستان کی جغرافیائی حدود خیبرپختونخواہ، بلوچستان، سندھ اور پنجاب پر مشتمل قرار دی گئی ہیں۔

جونا گڑھ میں کیا ہوا تھا؟

آئیں اب تھوڑا ماضی کو یاد کر لیتے ہیں۔ برطانوی حکومت نے برصغیر کی تقسیم سے قبل 262 ریاستوں اور راجوڑوں کو پاکستان، انڈیا یا آزادانہ حیثیت میں رہنے کا حق دیا تھا۔ ان ریاستوں میں جونا گڑھ کی ریاست بھی شامل تھی جس کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔

ریاست جونا گڑھ انڈین گجرات کے کاٹھیاواڑ ریجن میں واقع ہے۔ یہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر پر مشتمل تھی۔ اس کی زمین سرسبز جبکہ ایک حصہ بحیرہ عرب سے ملتا تھا۔

اس ریاست میں ہندو آبادی اکثریت میں تھی جبکہ حکمران مسلمان خاندان تھا۔

پاکستان کے ساتھ الحاق

تقسیم ہند کے دوران جونا گڑھ کے نواب محمد مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور 15 ستمبر 1947 کو پاکستان نے سرکاری گزیٹیئر بھی جاری کیا۔ تاہم اس ریاست کی پاکستان سے کہیں سے بھی سرحدیں نہیں ملتی تھیں۔

اس فیصلے پر مقامی لوگوں نے بغاوت کی جس کی بنیاد پر انڈین فورسز جونا گڑھ میں داخل ہو گئیں۔

پرنسیلی افیئرز کے مصنف یعقوب خان بنگش لکھتے ہیں کہ نواب آف جونا گڑھ کے دیوان سر شاہنواز بھٹو تھے۔

نواب نے اپنے دیوان کو کہا کہ اب وہ جو بہتر سمجھیں فیصلہ کریں۔ دیوان نے ریجنل کمشنر کو خط لکھا کہ آپ انتظامیہ کی معاونت کریں تاکہ خون خرابے اور جانی و مالی نقصان سے بچا جاسکے۔ اس طرح 9 نومبر 1947 کو انڈیا نے امن و امان کی بحالی کے نام پر ریاست کا کنٹرول سنبھال لیا۔

پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے نہرو کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں سخت احتجاج کیا اور انڈیا کے اقدام کو پاکستان اور بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

جواہر لال نہرو نے انڈین فورسز ہٹانے سے انکار کیا اور عوام سے رجوع کرنے کا وعدوہ کیا۔ اس کے بعد ریفرنڈم منعقد کیا گیا اور انڈین فوج کے زیر انتظام رائے شماری میں 19 ہزار سے زائد ووٹ انڈیا کی حمایت میں جبکہ 91 ووٹ پاکستان کے حق میں کاسٹ کیے گئے۔

نواب آف جونا گڑھ کی پاکستان آمد

انڈیا سے اس ریاست کے الحاق کے بعد نواب آف جونا گڑھ مہابت خانجی اہلخانہ، دیوان شاہنواز بھٹو اور اپنے پالتو کتوں کے ہمراہ بذریعہ جہاز پاکستان پہنچ گئے جبکہ ان کی ایک بیگم اور ایک بچہ وہاں ہی رہ گئے۔ لیکن وہ کبھی واپس نہ جا سکے۔

نواب مہابت خانجی 7 نومبر 1959 کو انتقال کر گئے۔ انھوں نے ورثا میں ایک بیوہ اور 17 لواحقین چھوڑے۔ ان کے بعد ان کے بڑے بیٹے نواب دلاور خانجی کو جان نشین قرار دیا گیا اور اس کے بعد جہانگیر نواب قرار پائے۔

املاک پر اختلاف

نواب آف جونا گڑھ کی املاک پر خاندان میں اختلافات سامنے آئے اور معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں جا پہنچا۔

سنہ 1963 میں کمشنر کراچی نے ریاست جونا گڑھ کی املاک کو دو حصوں میں تقیسم کیا جس میں سے ایک حصہ نواب دلاور کو دیا گیا جبکہ دوسرے ورثا میں نقد رقم تقیسم کرنے کا فیصلہ کیا۔

دیگر ورثا نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور شرعی قوانین کی روشنی میں اس کو ہائیکورٹ میں چیلینج کردیا جس کا فیصلہ ابھی تک رکا ہوا ہے۔

نواب آف جونا گڑھ کی املاک میں انڈین حکومت کے پاس 12 ملین روپے، حکومت پاکستان کے پاس تین ملین روپے، کراچی میں کروڑوں روپے مالیت کا جونا گڑھ ہاؤس، ملیر میں 16 ایکڑ پر مشتمل باغ، حیدرآباد میں روپ محل، ٹنڈو حیدر میں زرعی باغ، ٹنڈو محمد خان میں 500 ایکڑ زرعی زمین، زیوارت اور ہیرے جواہرات شامل ہیں۔

پرانے وعدے اور شکوے

جونا گڑھ کے موجودہ نواب خانجی جہانگیر نے چند سال قبل ایک پریس کانفرنس میں شکوہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کو پاکستان آنے کے ساتھ شہریت مل گئی لیکن بعد میں آنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ پہلے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں کے داخلے میں کوٹہ ہوتا تھا جس کو اب ختم کردیا گیا۔

نواب آف جونا گڑھ کو ڈیوٹی فری گاڑیوں اور الیکٹرونکس مصنوعات امپورٹ کی بھی اجازت تھی جس کو بعد میں واپس لے لیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp