نمرتا کے اجزا کی کیمیکل رپورٹ موصول ہو گئی


ڈینٹل کالج لاڑکانہ کے آخری سال کی شاگرد نمرتا مہرچندانی کی پراسرار موت کو آٹھ دن گذر گئے لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کی موت خودکشی تھی قتل؟

تفتیشی ادارے بتا رہے ہیں کہ ہم اس کیس کی مکمل تفتیش کر چکے ہیں لیکن چند ایک رپورٹس کا نتظار ہے اور اس کے بعد سب کچھ واضح ہو جائے گا، ان رپورٹس میں اہم موبائل ڈیٹا (کال میسیجز وغیرہ)، اجزاء کی کیمیل رپورٹنگ، ہسٹوپیتھالاجیکل اور ریڈیولاجیکل رپورٹنگ شامل ہیں۔

سوشل میڈیا پر دو باتیں چل رہی ہیں، ایک قتل کی اور دوسری خودکشی کی۔ جو لوگ خودکشی ثابت کرنا چاہتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ نمرتا ڈپریشن میں تھی، ڈپریشن کی وجہ حراست میں لیا گیا کلاس فیلو مہران ابڑو بتایا جا رہا ہے…

خودکشی کے موقف کے حامی اس بات کو بار بار دہرا رہے ہیں کہ نمرتا مہران سے شادی کرنا چاہتی تھی اور مہران کے انکار کی وجہ سے ڈپریشن میں تھی، اس وجہ سے وہ کئی ماہ سے ڈپریشن اور نیند کی گولیاں کھا رہی تھی، اس کی حمایت میں وہ ایک ہندو پروفیسر جو کہ فزیالوجی کے پروفیسر ہیں اس کے بیان کو جواز بنا کے پیش کرتے ہیں کہ “نمرتا ڈپریشن کی وجہ سے میرے پاس آئی تھی اور میں نے اسے یوگا اور ورزش کے لیے مشورہ دیا تھا”..

حالانکہ ہونا ایسا چاہیے تھا کہ اسے پروفیسر صاحب کسی نفسیاتی ڈاکٹر کا مشورہ دیتے لیکن اس نے اپنے میڈیٹیشن والے اسٹائل کو ترجیح دی اور نمرتا جو کہ خود بھی ایک میڈیکل کی شاگرد تھی کسی سائیکیاٹرسٹ کی بجائے فزیالوجی کے پروفیسر کے پاس گئی تھی..

نمرتا کی موت کو خودکشی کہنے والے لوگوں سارے دعوے تب جھوٹ ثابت ہوے جب اس کے اجزاء کی کیمیائی رپورٹ منظر عام پر آ گئی ہے جس میں صاف صاف کہا گیا ہے اس کے خون، معدے، جگر، گردوں وغیرہ کہیں سے بھی کسی نیند کی یا نشہ آور گولی یا کسی چیز کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملا..

اس کیمیائی رپورٹ سے پہلے بھی نمرتا کے نزدیکی لوگ کہہ رہے تھے کہ نمرتا جیسی زندہ دل لڑکی خودکشی کر ہی نہیں سکتی اور ہم نے اسے مایوس کبھی نہیں پایا۔

ابھی تو اور راز بھی افشا ہونے والے ہیں، ابھی موبائل ڈیٹا کا ریکارڈ منظر عام پے آنا ہے، ریڈیولاجیکل اور ہسٹوپیتھولاجیکل رپورٹس منظر عام پر آنی ہیں لیکن اس کیمیائی رپورٹ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ نمرتا کسی قسم کی گولی یا دوائی نہیں لیتی تھی اور وہ کسی قسم کی ذہنی دبائو میں نہیں تھی..


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).