مولوی فضل الرحمن اور دنیا میں پھیلتا ہوا احمدی نیٹ ورک


پاکستانی سیاست کے معصوم ترین سیاست دان مولانا فضل رحمان صاحب کو 25 جولائی 2018 کے الیکشن میں شکست کھانے کے بعد سے لے کر آج کی تاریخ تک سکون کی نیند نہیں آسکی۔ یقیناً یہ کوئی چھوٹا صدمہ نہیں کیونکہ مولانا اس بار حلوہ حاصل نہیں کر سکے۔ مگر پھر بھی مولانا کی عظمت کو سلام ہے جو بیشک اپنے آبائی حلقے کی قومی اسمبلی کی سیٹ تک حاصل نہیں کر سکے مگر پھر بھی اپنے آپ کو وزیر اعظم سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ کئی مرتبہ تو ایسا بھی سمجھ بیٹھتے ہیں کہ خدا تعالی کسی ضروری کام میں مصروف ہیں اور انہوں نے میرے سپرد تمام ذمے داریاں کردی ہیں، لہٰذا میں اسلام کا ٹھیکے دار ہونے کے ناتے کسی بھی انسان کے ایمان کا فیصلہ کر سکتا ہوں کہ کون کافر ہے، کون یہودی ہے، کون گناہ گار مسلمان ہے، کون درمیانہ مسلمان ہے اور کون میری طرح کا نیک مسلمان ہے۔ اور میں جو بھی فیصلہ کروں گا وہ یقنناً ایک حتمی فیصلہ ہوگا اور اس فیصلے پر عمل کرنا سب پر فرض ہوگا۔

مولانا صاحب اب موجودہ حکومت کو گرانے کے لیے اپنے چاہنے والوں سے چندہ جمع کر رہے ہیں۔ اور ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اسلام کا سہارا لیتے ہوئے چندہ برائے ناموس رسالت کے نام پر پیسے جمع کر رہے ہیں۔ بے شک پاکستان میں نہ اسلام خطرے میں ہے اور نہ ناموس رسالت اور نہ عقیدہ ختم نبوت کو کوئی خطرہ ہے۔ بے شک مولانا صاحب عمران خان سے کئی گنا زیادہ محب وطن پاکستانی ہیں اور ہزار بار کراچی گئے ہوئے ہیں، مگر افسوس کہ دینی مصروفیت کے باعث کبھی قائداعظم کے مزار پہ فاتحہ نہیں پڑھ سکے۔

حالیہ جلسے میں مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ ‏”قادیانی نیٹ ورک پوری دنیا میں متحرک ہے، مذہبی طبقہ اضطراب میں مبتلا ہوچکا ہے۔“

کاش مولانا صاحب کبھی اپنی پگڑی کے نیچے خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی عقل کو استعمال کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ آخر احمدی نیٹ ورک پوری دنیا میں کس طرح متحرک ہوا؟ اگر اپنی عقل کا استعمال کرتے تو یقنناً جواب یہی ملتا کہ اگر ہم احمدیوں کو اتنی جوتیاں نا مارتے اور انہیں پاکستان میں زندہ رہنے کی اجازت دے دیتے تو وہ آج اپنے ہی ملک میں زندگی گزار رہے ہوتے، مگر افسوس کہ ہم نے احمدیوں کو اتنی جوتیاں ماریں کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے، اور اس وجہ سے آج وہ دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں پھیل چکے ہیں۔

پیارے مولوی فضل الرحمان، پاکستانی احمدی 1973 سے لے کر آج کی تاریخ تک آپ کی خواہش کے مطابق کافر ہیں مگر پھر بھی احمدیوں سے زیادہ آپ اضطراب کا شکار ہیں! مولانا صاحب کبھی آپ نے خدا کی جانب سے  دی گئی عقل کا استعمال کرتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچا کہ آپ ایسے پاکستان میں شامل ہی کیوں ہوئے جس کے پہلے وزیر خارجہ جناح صاحب کے پسندیدہ سر ظفراللہ خان صاحب تھے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).