ٹرمپ کے زیادہ قریب کون: مودی یا عمران؟ انڈیا پاکستان کی لڑائی
کیا انڈیا کے وزیر اعظم کے جلسے میں جانا پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں گرمجوشی دکھانے سے زیادہ بڑی بات ہے؟
یہ وہ موضوع ہے جس پر، جنوبی ایشیا کے بہت سے لوگ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انڈیا اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد بحث کرتے رہے۔
انڈیا کے وزیر اعظم کے ساتھ امریکی ریاست ٹیکساس میں جلسے میں شرکت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان پر الزام لگایا کہ اس نے انڈیا اور امریکہ میں حملے کرنے والوں کو پناہ دی۔
اس کے ایک ہی دن کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو پاکستان کا ’دوست‘ قرار دیا۔
انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو ’عظیم لیڈر‘ بھی کہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے بہت سے پاکستانی دوست ہیں اور اس کے علاوہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے پاکستان کے خلاف الزامات کے بارے میں ایک سوال کا براہ راست جواب دینے سے بچتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کا ’نمبر ون‘ دہشت گرد در اصل ایران ہے۔
مزیر پڑھیے:
عمران اور مودی ٹائٹینک فلم سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
انڈیا: مودی اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر نہیں کریں گے
’پاکستان، انڈیا مسئلہ کشمیر پر مل کر اختلافات دور کریں‘
اس پیشرفت نے یقیناً انڈیا میں سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ایک روز قبل ہی ان میں سے بہت سے لوگوں نے صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کی مشترکہ ریلی کو پاکستان کے خلاف ایک اور فتح کے طور پر پیش کیا تھا۔
انڈیا کے بہت سے لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر عمران خان کے میمز بنائے گئے جن میں وہ بہت مایوس نظر آ رہے تھے اور انہوں ٹیکساس کے جلسے کو پاکستان کے خلاف ایک اور ’سرجیکل سٹرائیک قرار دیا‘۔
لیکن عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے بعد صورتحال یقیناً بدل گئی۔ پاکستان میں بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے عمران خان کی تعریف میں میسج لکھنا شروع کر دیے اور انڈیا کے لوگوں کو بھی سخت جواب دیے۔ اس طرح کے ہیش ٹیگ چلنے لگے:
ManOfPeaceImranKhan #ImranKhanDoctrine #Imrankhanforpeace #
انڈیا سے صحافی روہنی سنگھ نے ٹویٹ کیا کہ ’ہم نے ٹرمپ کے لیے ایک ریلی کی، ان کی پارٹی کے لیے نعرے لگائے، ان کے دوبارہ انتخاب کی حمایت کی، ڈیموکریٹس کو ناراض کیا، یہ صرف اس لیے تھا کہ وہ عمران خان اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کی تعریف کرے؟
لیکن صدر ٹرمپ کی دونوں رہنماؤں سے ملاقاتوں کا مطلب کیا ہے؟
انڈین صحافی ایم صدیقی نے ٹویٹ کیا کہ صدر ٹرمپ ’ واضح طور انڈیا اور پاکستان سے وہی بات کر رہے تھے جو وہ سننا چاہتے تھے اور ان کی گفتگو کا اصل مرکز افغانستان میں امریکی فوجی اور مفاد تھا۔‘
انڈیا کے ایک اور صحافی شیکھر گپتا نے ’ٹرمپ وہی کر رہے تھے جو وہ کرتے ہیں۔ وہ انڈیا سے تجارتی معاہدہ چاہتے ہیں اور پاکستان سے افغانستان میں مدد۔ اور وہ نوبل انعام بھی چاہتے ہیں۔ انہیں ان دونوں ملکوں کی یا ان کے رہنماؤں کی پرواہ نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں بازی انڈیا/مودی کے نام ہی ہو گی۔
- دولت کی عظیم منتقلی جو نوجوانوں کو ’کچھ کیے بغیر‘ ارب پتی بنا رہی ہے - 20/04/2024
- کینیڈا میں چار سو کلو خالص سونے اور لاکھوں ڈالر کی چوری کے کیس میں گرفتاریاں: ’منظم گروہ نے یہ سب نیٹ فلکس سیریز سٹائل میں کیا‘ - 20/04/2024
- انڈیا میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی پانے والے مسلمان طلبہ: ’سخت محنت کا کوئی نعم البدل نہیں‘ - 20/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).