فردوس عاشق اعوان: آپ نے رنج و الم پر ہنسنا کہاں سے سیکھا؟


پاکستان میں منگل کو 8.5 کی شدت سے آنے والے زلزلے میں جو تباہی ہوئی اس کے نتیجے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق پچیس سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہیں۔ وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے زلزلے کے بارے میں کہا کہ ”پاکستان میں جب کوئی تبدیلی آتی ہے تو نیچے (زمین میں ) بے تابی ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی کی نشانی ہے جو زمین نے بھی کروٹ لی ہے کہ اس کو بھی اتنی جلدی تبدیلی قبول نہیں۔ “ انہوں نے یہ بیان مسکراتے ہوئے دیا۔

ان کی مسکراہٹ اس امر کی عکاس اور غماز ہے کہ اس زلزلے کو زیادہ سیرئیس نہیں لینا چاہیے۔ ٹھیک ہے کہ اس میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں اور بہت سے لوگ زخمی بھی ہیں لیکن یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی شخص مر رہا ہوتا ہے۔ پھر ان اموات پر رنجیدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ موت برحق ہے اور ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ تو کیا ہوا اگر کچھ لوگ زندگی کی بازی ہار گئے۔ اگر وہ اور جیتے رہتے تو انہیں کون سا تمغہ مل جاتا۔

جو لوگ زندہ ہیں ان کی بے بسی اور لاچاری دیکھ کر واقعی مرنے والوں پر رشک آتا ہے۔ اشیائے خورد ونوش خریدنے کی سکت نہیں رہی۔ معیشت بیٹھ چکی ہے۔ ہر پاکستانی کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ پانی کی شدید قلت کے باوجود کوئی ڈیم بننے کی بھی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ نہ گھر مل رہے ہیں نہ نوکریاں ملنے کا کوئی امکان ہے۔ ایسے میں یہی خوشی کی بات ہے کہ کچھ لوگ ان مصائب سے نجات پا گئے۔

ہمارے ہاں خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ زلزلے دنیا بھر میں آتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی زلزلہ آ گیا تو کون سی قیامت آ گئی۔ اسی لیے تو معاونِ خصوصی نے سمجھانے کی کوشش کہ اس زلزلے کو دل پر مت لیں۔

امید ہے فردوس عاشق اعوان کو اس بیان پر کپتان کی طرف سے شاباش ضرور ملے گی۔ جیسا کہ فیاض الحسن چوہان کو کپتان نے اپنا شیر قرار دیا تھا۔ بھولے بھالے عوام نے ان کی گفتگو کو بدزبانی، بد تمیزی اور بد تہذیبی سمجھا تھا، میڈیا پر بھی بہت شور اٹھا تھا مگر جب کپتان نے انہیں گلے لگایا تو تب بات سمجھ میں آئی کہ وہ دراصل ان کی صاف گوئی تھی۔

کپتان کی ٹیم میں ایک سے بڑھ کر ایک گراں بہا رتن موجود ہے۔ نعیم الحق میڈیا والوں پر طعنے کستے ہیں، شہباز بھٹی خاتون اینکر سے توہین آمیز سلوک کرتے ہیں اور فواد چوہدری نے تو اینکر کو تھپڑ دے مارا تھا۔ براہِ کرم ایسا مت سمجھیں کہ انہوں نے کچھ غلط کیا تھا۔ فردوس عاشق اعوان ہی بتا چکی ہیں کہ دو دو ٹکے کے لوگ ٹاک شوز کرتے ہیں۔ کہاں کپتان کے انمول رتن اور کہاں دو دو ٹکے کے جرنلسٹ۔ چناں چہ انہوں نے بجا طور پر انہیں سبق سکھایا تھا۔

اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے اتنی عمدہ تربیت کس ادارے سے حاصل کی ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا تو ہم بھی وہاں سے اکتسابِ علم کرتے۔ ہمیں اپنی کمی پر احساس کم مائیگی ہے اور زود رنج طبیعت پر رونا آتا ہے کیوں کہ ہم چھوٹے چھوٹے واقعات پر درد و غم سے بھر جاتے ہیں۔ دل خون کے آنسو روتا ہے خواہ ساہیوال میں میں شادی پر جانے والا خاندان گولیوں کا نشانہ بن جائے، چودہ پندرہ سالہ ریحان چوری کے الزام میں پکڑے جانے کے بعد عوامی تشدد سے مارا جائے یا اے ٹی ایم مشین کے کیمرے کا منہ چڑانے والا صلاح الدین پولیس کے تشدد سے ہلاک ہو جائے۔ ہم ایسے نادان ہیں کہ ریاست سے ان مرنے والوں کے لیے انصاف کے متمنی ہیں جبکہ یہ کوئی اہم واقعات نہیں ہیں۔ جب زلزلے سے اتنے لوگوں کا مر جانا کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو ایک آدھ بندے کے مرنے کی کیا اہمیت ہو گی۔

خیر یہ ساری باتیں اپنی جگہ ہیں لیکن ہمیں یہ سمجھ میں آتا کہ ہم اپنے دل کو کیسے سمجھائیں۔ شاید ہماری گرومنگ میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ ہمیں ابھی مزید تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے تا کہ ہم اس مقام پر پہنچ جائیں جہاں ہم ان لوگوں سے صحیح طریقے سے نمٹ سکیں جنہیں ہم اپنے طور پر غلط سمجھتے ہوں۔ اسی طرح قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور نقصان کو ہنس کر برداشت کر سکیں۔ یقین کیجیے کہ یہ بہت بڑی خوبی ہے۔

اپنے دکھوں کو ہنس کر برداشت کرنا تو سب کو آتا ہے۔ اصل خوبی یہ ہے کہ ہم دوسروں کے رنج و الم پر ہنس سکیں۔ اس طرح ہم سوگوار ماحول میں مسکراہٹیں بکھیر کر مجموعی طور پر ماحول کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ چناں چہ یہ مہارت حاصل کرنے کے لیے ہمیں فردوس عاشق اعوان سے پوچھنا ہو گا کہ انہوں نے دوسروں کے رنج و الم پر ہنسنا کہاں سے سیکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).