میرپور زلزلہ: زلزلے کے متاثرین جسمانی زخموں کے ساتھ ساتھ ذہنی صدمے کا بھی شکار


صغراں بی بی

ضلع جہلم کے دیہی علاقے رانجھا میرا کی 27 سالہ خاتون صغراں بی بی جو گذشتہ روز زلزلے میں زخمی ہوئیں

صغراں بی بی کو ڈاکٹروں نے نیند کے انجکشن دیے لیکن وہ کچھ دیر کے لیے لیٹتی اور پھر اچانک نیند سے بیدار ہو کر،آنکھیں بند کیے ہوئے اپنے قریب موجود رشتہ داروں سے پوچھتی ہیں کہ میرے مرنے کے بعد ’میرے بچوں کو کون پالے گا‘؟

صغراں بی بی کی دیکھ بھال کے لیے ہسپتال میں موجود ان کی والدہ اور دیگر رشتہ دار ان کو تسلیاں دیتے ہیں کہ ان کے بچے خیریت سے ہیں اور وہ (صغراں) خود ہی اپنے بچوں کو پالیں گی۔

پاکستان کے ضلع جہلم کے دیہی علاقے رانجھا میرا کی 27 سالہ بیوہ خاتون صغراں بی بی منگل کی سہ پہر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب کے کئی علاقوں میں آنے والے زلزلے میں زخمی ہوئی تھیں۔

اس زلزلے نے جہاں انھیں زخمی کیا وہی وہ اس زلزلے کے خوف کا اثر ان کے ذہن پر بھی ہوا ہے۔

یہ ایک ایسا امر ہے جو اکثر کسی ایسے واقعات کے بعد متاثرہ علاقوں کے افراد کے ذہن پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے اور انھیں کسی ذہنی ٹراما کا شکار بنا دیتا ہے۔

واضح رہے کہ قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر، دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب کے کئی علاقوں سمیت پاکستان کے بالائی حصوں میں منگل کی سہ پہر 5.8 کی شدت سے آنے والے زلزلے میں ابتک 24 افراد ہلاک جبکہ 452 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

میرپور زلزلہ: کم از کم 24 افراد ہلاک، 452 زخمی

چند گھنٹوں میں پاکستان میں دوسرا زلزلہ، شدت 6.2

بلوچستان میں 6.3 شدت کا زلزلہ، نقصان کی اطلاع نہیں

’زمین کوبھی اتنی جلدی یہ تبدیلی قبول نہیں‘

زلزلہ

برکت بی بی کے مطابق ان کے گاؤں میں 40 سے 50 گھروں کو زلزلے سے نقصان پہنچا ہے جو زیادہ تر کچی مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔

صغراں بی بی کی والدہ برکت بی بی نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ جس وقت زلزلے آیا اس وقت صغراں بی بی اپنے بچوں کے لیے کھانا تیار کرنے کے بعد آرام کرنے کی غرض سے بستر پر لیٹی ہی تھیں۔

’وہ مجھ سے باتیں کرنے لگی کہ اماں ان بچوں کا والد تو چلا گیا اور اگر مجھے بھی کچھ ہو گیا تو میرے بچوں کو کون پالے گا۔‘

برکت بی بی کے بقول انھوں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ ایسی باتیں نہیں کرتے اور ان کو تسلی دی کہ جس طرح گھر میں موجود دوسرے بچوں کی پرورش ہو رہی ہے اسی طرح ان کے بچوں کی بھی پرورش ہو جائے گی۔

برکت بی بی نی بتایا کہ ’ابھی صغراں بی بی لیٹی ہی تھی کہ اچانک زلزلہ آیا۔‘

صغراں بی بی نے چارپائی سے اتر کر صحن میں جانے کی کوشش کی لیکن اس دوران مکان کے اوپر والے حصے کی دیوار کا کچھ حصہ ان کے اوپر آ گرا جس سے ان کے سر اور چہرے کے ایک حصے پر زخم آئے۔

برکت بی بی کا کہنا تھا کہ صغراں بی بی کے تین بچے ہیں جو زلزلے کے وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ ان کے مطابق ان کے گاؤں میں 40 سے 50 گھر ہیں جن میں سے زیادہ تر کچی مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔

زلزلہ

برکت بی بی کہتی ہیں کہ ان کے گاؤں میں گاڑی ملنا مشکل تھا اس لیے پہلے صغراں بی بی کو ایک ٹرالی پر لایا گیا اور پھر جی ٹی روڈ پر پہنچ کر گاڑی کرائے پر لیکر انھیں ہسپتال پہنچایا گیا۔

برکت بی بی نے بتایا کہ تین سال قبل ان کی بیٹی صغراں جب بیوہ ہوئیں تھی تو اسی وقت وہ ان کو گھر لے آئیں تھی اور کہا تھا کہ ’جہاں اس گھر میں دیگر افراد کھانا کھاتے ہیں تمھیں اور تمھارے بچوں کو بھی کھانا ملے گا۔‘

ڈسٹرکٹ ہسپتال جہلم کے ڈپٹی میڈیکل سپرینٹینڈنٹ ظہور کیانی نے بی بی سی کو بتایا کہ صغراں بی بی کے سر پر چوٹیں آئی ہیں تاہم اس کا سٹی سکین کروانے کے بعد ہی صورت حال واضح ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ صغراں بی بی جو کچھ دیر کے بعد اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں اور اپنے بچوں کا ذکر کرتی ہیں تو اس سے محسوس ہوتا ہے کہ زلزلے کی وجہ سے انھیں ذہنی طور پر صدمہ پہنچا ہے۔

ڈاکٹر ظہور کیانی کے مطابق صغراں بی بی کو بدھ کے روز ماہر نفسیات کو بھی دکھایا جائے گا تاکہ صورت حال واضح ہو سکے۔

زلزلہ

ڈی ایچ کیو میرپور میں اپنے زخمی والد اور بیٹے کے ساتھ آئے ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ کام پر تھے جبکہ ان کے والد اور بیٹا گھر میں موجود تھے۔

ڈسٹرکٹ ہسپتال میرپور کی صورتحال

دوسری جانب بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید نے بھی زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔

نامہ نگار کے مطابق ڈسٹرکٹ ہیڈ کوراٹر ہسپتال میرپور کا سرجیکل وارڈ شہر کے نواح میں واقع کئی دیہات سے لائے گئے متاثرین سے بھرا ہوا ہے۔ ان افراد میں سے متعدد کی ٹانگیں ملبے تلے دب کر ٹوٹی ہیں جبکہ کچھ کو سر اور دیگر حصوں پر زخم آئے ہیں۔

فرحت جاوید بتاتی ہیں کہ جب میں ہسپتال میں داخل ہوئی تو پہلی آواز جو میرے کان میں پڑی وہ یہ تھی کہ ‘میری بڑی بیٹی کا سر پھٹ گیا ہے۔’

ہسپتال کے گیٹ کے قریب بنے چبوترے پر گرد آلود کپڑوں میں بیٹھا شخص بظاہر اپنے کسی رشتہ دار کو بتا رہا تھا کہ ان کا زلزلے سے کتنا نقصان ہوا ہے اور اس کی گود میں غالباً اس کی دوسری بیٹی ڈری اور سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔

اس سے چند ہی قدم کے فاصلے پر سرجیکل وارڈ سے ایک میت نکالی جا رہی تھی جو ایک ایسے بچے کی تھی جو زلزلے میں عمارت گرنے سے زخمی ہوا اور پھر دم توڑ گیا تھا۔

ایک بستر پر اسی سال سے زائد عمر کے بزرگ لیٹے تھے، جن کی ٹانگیں اب بھی خون میں لت پت تھیں، انھیں متعدد فریکچر بھی آئے تھے۔

قریب ہی ایک اور بیڈ پر ایک ماں بار بار یہ سوچ کر سسکیاں بھر رہی تھیں کہ وہ اس وقت اپنے بیٹے کے پاس موجود نہیں تھیں جب ان پر دیوار گری۔

زلزلہ

خاتون صائمہ کے مطابق جب زلزلہ آیا تو وہ گھر میں کپڑے دھو رہی تھیں جبکہ ان کا بیٹا نانی کے گھر پر کھیل رہا تھا

ابدو بٹ کی رہائشی خاتون صائمہ کے مطابق جب زلزلہ آیا تو وہ گھر میں کپڑے دھو رہی تھیں جبکہ ان کا بیٹا اپنی نانی کے گھر صحن میں کھیل رہا تھا۔

‘بچہ صحن میں کھیل رہا تھا جب دیوار گری اور وہ زخمی ہو گیا۔’

انھوں نے بتایا ‘اور بھی بچے زخمی ہوئے ہیں جبکہ دو خواتین فوت ہو گئیں ہیں۔ نقصان کا کوئی اندازہ نہیں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔’

‘ہمارے گاؤں میں بہت تباہی ہوئی ہے مکان گر گیے ہیں، کوٹھیاں گر گئی ہیں، نہر کا بند ٹوٹ گیا ہے اور پانی ہمارے گھروں میں داخل ہو گیا ہے۔’

ڈی ایچ کیو میرپور میں اپنے زخمی والد اور بیٹے کے ساتھ آئے ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ کام پر تھے جبکہ ان کے والد اور بیٹا گھر میں موجود تھے۔

‘یہ دادا اور پوتا گھر کے اندر تھے، چھت گری اور یہ دونوں زخمی ہو گئے۔ والد کی ٹانگ پر چوٹ آئی ہے اور سر پر زیادہ چوٹ آئی ہے۔ پورا جسم چھلنی ہو گیا ہے۔ بچے کی حالت کچھ بہتر ہے۔ خراشیں آئی ہیں لیکن نہیں معلوم کے اندرونی طور پر اسے کتنی چوٹیں آئی ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp