باجی دوپٹہ سر پر کریں، زلزلہ آ رہا ہے!


 ”باجی دوپٹہ سر پر کریں، زلزلہ آ رہا ہے! “۔
یہ وہ الفاظ تھے جن کے ذریعے میری والدہ کو پتا لگا کہ آج اسلام آباد میں زلزلہ آیا تھا۔ نکلی وہ گھر سے سبزی لینے تھیں، مگر لے کر وہ ایک سرٹیفکیٹ آئیں، جسنے ایک ہی لمحے میں درجنوں میل زمین کے نیچے چھپی ٹیکٹونک پلیٹس کو، اس پر چلتی عورت کے لباس سے جوڑ دیا۔ امی کو سبزی فروش کی ”تجویز“ پر نہ کوئی حیرت ہوئی، اور نہ ہی انہوں نے اس پر کوئی اعتراض کیا، بلکے چپ چاپ اپنی مجرمانہ غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے دوپٹہ سر پر کیا، اور اس کے اندر دنیا بھر کی آفات کو سمیٹ لیا۔ مجھے یہ قصّہ سناتے ہوئے بھی، انہوں نے اپنا دوپٹہ اتنی مضبوطی سے تھاما ہوا تھا کہ جیسے اس کے سر سے سرکنے کی دیر ہے کہ کائنات کے تمام آتش فشاں پھٹ پڑیں گے، سمندر بے قابو ہو جائیں گے، اور ستارے ٹوٹ جائیں گے۔

مجھے نہ اپنی ماں کو نیک اور پردہ دار ثابت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی مذہبی عقائد کو سائنس کی روشنی میں جانچنے سے دلچسبی، مگر ایسی تعفن زدہ سوچ پر غصّہ ضرور ہے، جو قدرتی آفت کے موقعے پر بھی، اپنی یا دوسروں کی زندگی بچانے سے زیادہ، ایک بوڑھی عورت کے لباس پر تبصرہ کرنا زیادہ اہم سمجھے۔ انسانی نفسیات کا طالبعلم ہونے کے ناتے میں یہ بات یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اس شخص کا وہ جملہ بے ساختہ تھا، جو کہ لا شعوری طور پر اس کے منہ سے نکلا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ لاشعور ہی کسی بھی ذہن کے حقیقی ”موٹوس“ کا عقاس ہوتا ہے۔

اور اس سبزی فروش کا لاشعور، اس معاشرے کے کروڑوں خواندہ اور نیم خواندہ لوگوں کی سوچ کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس سوچ کو آپ ”مسوجنی“ کہ لیں، ”پٹریاکی“ یا محض جہالت، مگر یہ سوچ آپ کو اس معاشرے کے چپے چپے میں پھیلی نظر اے گی۔ کہیں لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف علم بلند کرتے ہوئے کو کہیں کو ایجوکیشن کو شیطانی چال بتاتے ہوئے۔ کہیں جائداد سے اپنی بیٹیوں کو محروم کرتے ہوئے تو کہیں پسند کی شادی کرنے پر بہنوں کو قتل کرتے ہوئے۔

کہیں سترہ سالہ لڑکی کی حفاظت پر سات سالہ بھائی کو مامور کرتے ہوئے تو کہیں بیٹی کی پلیٹ سے بوٹی نکال کر بیٹے کو دیتے ہوئے۔ کہیں بی اے فیل بھائی کو نوکری نہ ملنے کے طعنے دیتے ہوئے تو کہیں ڈاکٹر بیوی کو نوکری کرنے سے روکتے ہوئے۔ کہیں اسکول کی بچیوں کو سکارف پہنے پر مجبور کرتے ہوئے تو کہیں پردہ حفاظت ہے کے ٹویٹر ٹرنڈس چلاتے ہوئے۔ کہیں ریپ کی وجہ غیر اسلامی لباس بتاتے ہوئے تو کہیں عورت کی چال دیکھ کر اس کی چل چلن پر تبصرہ کرتے ہوئے۔

لا شعور میں چھپی بیماری چاہے سائکولوجیکل مسائل کی وجہ سے ہو یا فسولوجیکل امبلنس کی وجہ سے، اگر اس کی تشخیص ہو جاے تو ٹھیک ہو جاتی ہے اور یہی معاملہ معاشرتی بیماریوں کے ساتھ بھی ہے۔ ذہنی بیماریوں کے ڈاکٹرز تو یہاں ہزاروں ہیں جن کی معاشرے میں کافی عزت بھی ہے مگر معاشرتی بیماریوں کی طرف اشارہ کرنے والوں کو یہاں لبرل، اسلام دشمن اور کافر قرار دے کر اتنا ناپید کر دیا گیا ہے کے شاید کچھ درجن ہی بچے ہوں گے۔

ان معاشرتی ڈاکٹرزکی کمی کی وجہ سے کئی سادہ لوح انسان، جو با عمل یا با علم نہ سہی مگر با غیرت مسلمان ضرور ہوتے ہیں، وہ اپنی ذہنی بیماری کے علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بیمار کا میں نے مفت علاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی خاطر میں اگلے ہفتے سبزی لینے خود جاؤں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).