ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور آرڈیننس: خیبر پختونخوا میں انسدادِ دہشتگردی کے مخصوص قوانین کی ضرورت اب کیوں؟


پشاور ہائیکورٹ

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت نے سابقہ طور پر وفاق اور صوبے کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کو قانونی تحفظ دینے اور مبینہ شدت پسندوں کو حراستی مراکز میں رکھنے کے لیے نافذ کردہ مخصوص قوانین ’ایکشنز ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن‘ کا دائرہ پورے صوبے تک بڑھا دیا ہے۔

بظاہر سول انتظامیہ کی مدد کے لیے سیکورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دینے والے اس آرڈیننس پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

پہلے ان قوانین کا اطلاق پہلے صرف فاٹا اور صوبے کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (پاٹا) یعنی ملاکنڈ ڈویژن کے بعض علاقوں تک محدود تھا لیکن فاٹا اور پاٹا کے صوبے میں انضمام کے بعد اب ان قوانین کا دائرہ کار پورے صوبے تک پھیلا دیا گیا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کی طرف سے اگست میں ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس میں 2011 میں نافذ کیے گئے دو قوانین ایکشن ان ایڈ آف سول پاور برائے فاٹا اور پاٹا کی از سرِ نو منظوری دی گئی۔

حکومت کی طرف سے اس آرڈیننس کی منظوری انتہائی خفیہ رکھی گئی اوراس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو بھی مکمل طورپر لاعلم رکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

’فاٹا میں 70 سال کا کام کرنے کا وقت آ گیا‘

سابقہ فاٹا میں قبیلے کی مانیں یا قانون کی؟

فاٹا کا نظام آخر کیسے چلے گا؟

ایکشنز ان ایڈ آف سول پاور قوانین کیا ہیں؟

ایکشنز اِن ایڈ آف سول پاور قوانین پہلی مرتبہ 2011 میں اس وقت نافذ کیے گئے جب سابق قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری تھا اور امنِ عامہ کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی۔

اس وقت یہ قوانین دو ریگولیشنز پر مشتمل تھے جن میں ایک فاٹا کے لیے اور دوسرا پاٹا یعنی ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع کے لیے نافذ کیا گیا۔

اگرچہ ان قوانین پر عمل درآمد 2011 میں شروع ہوا لیکن سکیورٹی فورسز کی طرف سے 2008 سے قبل کیے گئے آپریشنز کو بھی اس قانون میں تحفظ دیا گیا۔

ان قوانین کے تحت سکیورٹی فورسز کی طرف سے صوبے بھر اور فاٹا میں کئی حراستی مراکز قائم کیے گئے جس میں ہزاروں مبینہ شدت پسندوں کو رکھا گیا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق یہ حراستی مراکز صوبے کے مختلف علاقوں میں بدستور فعال ہیں اور ان کی تعداد تقریباً 30 کے لگ بھگ بتائی جاتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان مراکز میں اب بھی ہزاروں کی تعداد میں افراد شدت پسندی کے الزام میں کئی سالوں سے زیرحراست ہیں۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی آرڈیننس کی کاپی میں اس کے نفاذ کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ’غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے والے عناصر اور شرپسندوں کی جانب سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہے ۔۔۔ چنانچہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو کارروائیوں کے لیے طلب کیا جا رہا ہے۔‘

اس کے علاوہ آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’چونکہ خیبر پختونخوا کے صوبے کے وہ علاقے جو شرپسندوں سے خالی کروا لیے گئے ہیں، ان میں فوج کی موجودگی ضروری ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے دوران شرپسندوں کو حراست میں لے کر ان کے عزائم ناکام بنانے کے لیے قانونی اجازت دی جائے۔‘

ان قوانین پر اختلاف کیا ہے؟

ان قوانین کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے والے وکیل شبیر حسین گیگیانی ایڈوکیٹ کا الزام ہے کہ حراستی مراکز میں ان افراد کو رکھا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً مختلف علاقوں سے لاپتہ ہوتے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ریگولیشنز میں ’قانونِ شہادت ایکٹ‘ کے برعکس کسی بھی حراستی مرکز کے افسر کے بیان کو مشتبہ شخص کے خلاف شواہد کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر ان کو سزا بھی ہوسکتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اسی طرح حراستی مرکز کے افسر کی طرف سے کسی مشتبہ شخص کے خلاف اکٹھا کیے گئے مواد، کسی کی طرف سے ملنے والی معلومات یا کوئی اور ثبوت بھی بطور شہادت قبول کیا جاسکتا ہے۔

اس آرڈیننس کے تحت مشتبہ افراد کو عمر قید اور 10 سال قید تک کی سزا سے لے کر سزائے موت سنائی جاسکتی ہے جبکہ ان پر جرمانے عائد کیے جانے کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد بھی ضبط کی جاسکتی ہے۔

ان قوانین میں سب سے اہم نکتہ وہ ’ڈیفائنڈ ایریا‘ یا بیان کردہ مقام یا مقامات ہیں جہاں سکیورٹی فورسز کو کارروائی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ بیان کردہ مقامات کی تشریح کے مطابق یہ وہ علاقے ہیں جہاں کارروائی کی جاتی ہے، اور اس کی منظوری حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے۔ یہ کوئی بھی علاقہ ہوسکتا ہے جہاں امن کی بحالی کے لیے فورسز کو بھیجا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں سے مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا جاسکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی شخص ’بیان کردہ علاقے‘ میں نہیں بھی ہے، تب بھی ان کو حراست میں لیا جاسکتا ہے، یا اگر کوئی شخص مبینہ طور پر کسی ملزم کے خلاف تفتیش میں رکاوٹ ڈال رہا ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے۔

ان قوانین کے مطابق اگر کوئی شخص ’ملکی سالمیت’ یا ’امنِ عامہ’ کے لیے خطرہ ہو، تو ان کو بھی حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔

آرڈیننس کے تحت یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ کیسز کا جائزہ لینے کے لیے ایک نگرانی بورڈ قائم کیا جائے گا جو دو فوجی اور دو سویلین افسران پر مشتمل ہوگا۔ یہ بورڈ 120 دنوں کے اندر اندر حراستی مراکز میں قید افراد کے کیسز کو دیکھے گا۔

اس قانون میں تشدد کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔

باب خیبر

پاکستان کی وفاقی حکومت نے گزشتہ سال فاٹا انضمام کے بعد تمام کالے قوانین اور فرسودہ روایات کے خاتمے کا اعلان کیا تھا

خیبر پختونخوا حکومت نے یہ قوانین کب نافذ کیے؟

ان قوانین کے نفاذ کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب ایڈووکیٹ شبیر حسین گیگیانی کی طرف سے ان کے خاتمے کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں پہلے سے دائر کردہ ایک رٹ پٹیشن کی سماعت ہوئی۔

ایڈووکیٹ گیگیانی کی طرف سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ فاٹا اور پاٹا کے لیے منظور کردہ ان قوانین کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ دونوں ریگولیشنز بنیادی انسانی حقوق سے نہ صرف متصادم ہیں بلکہ ان کو مزید جاری رکھنا بھی خلافِ آئین ہے۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شمائل احمد بٹ کی طرف سے انکشاف کیا گیا کہ صوبائی حکومت نے ایک آرڈیننس کے تحت پہلے سے لاگو کیے گئے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور قوانین کو نئے سرے سے جاری کیا ہے اور ان کا دائرہ کار اب پورے صوبے تک پھیلا دیا گیا ہے۔

ان قوانین کے تحت سکیورٹی فورسز اور متعلقہ افسران کو وسیع اختیارات دیے گئے ہیں جس میں مشتبہ افراد کو عدالت میں پیش کیے بغیر انھیں حراست میں رکھنے، اور صوبائی حکومت کی منظوری سے مشتبہ افراد کی جائیداد پر قبضہ کرنے جیسے اختیارات شامل ہیں۔

قبائلی افراد

دریں اثناء منگل کو پشاور ہائی کورٹ میں ان قوانین کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے آئین معطل کرکے اس کی جگہ یہ نیا آرڈیننس نافذ کر دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس آرڈیننس کے نفاذ کا مقصد ان مشتبہ افراد کے کیسز کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے جو مختلف حراستی مراکز میں کئی سالوں سے قید ہیں اور اپنی پیشیوں کے انتظار میں ہیں۔

گذشتہ روز خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے یہ آرڈنینس جاری کرنے پر شدید تنقید کی گئی اور اس کے نفاذ کو صوبے میں ’سول مارشل لا‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔

اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم پی اے احمد کنڈی نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ویسے ہی انڈیا کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر تنقید کر رہے ہیں، مگر یہاں بھی گورنر نے خفیہ طریقے سے سخت ترین قانون نافذ کردیا ہے۔‘

ان قوانین کے خلاف ردعمل

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی طرف سے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں اس مقصد کے تحت انضمام کیا گیا تھا تاکہ ان کو قانونی حقوق اور انصاف مل سکیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان قوانین کے نفاذ سے ان کے لیے انصاف کے حصول کے بجائے اب رکاوٹیں حائل ہوں گی۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کا موقف معلوم کرنے کے لیے ان کے ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی سے بارہا رابطے کی کوشش کی گئی لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک اس سلسلے میں کامیابی نہیں ہوسکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp