کیا پندرہ لوگ ایک خیمے میں آسکتے ہیں؟


mirpur

میر پور میں 32 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ کل ہلاکتوں کی تعداد 38 ہے: این ڈی ایم اے

فی الحال تو میرا سب کچھ ختم ہو گیا ہے، امداد کے وعدے تو یہاں ابھی سب کر کے گئے ہیں، یہ کب آئے گی، یہ کوئی نہیں بتاتا۔’

پچاس سالہ شمریز اختر کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے، یہاں ہر کمرے کی دیواروں میں شگاف پڑے ہیں، پکی چھت سے بھی اب سورج کی روشنی اندر آتی ہے، گھر کی بیرونی دیواریں گر گئی ہیں، مویشی مر گئے ہیں۔ ان کے گھر کا سارا سامان صحن میں پڑا تھا جسے اب فوجی اہلکاروں اور ریسکیو کارکنوں کی مدد سے ایک ٹرک پر لادا جا رہا تھا۔

‘یہ سامان اب رشتہ داروں کے گھر بھیج رہا ہوں تاکہ کچھ تو محفوظ رہے۔ ہم نے رات بارش میں یہاں کھلے آسمان تلے گزاری ہے، میرا بیس پچیس لاکھ کا نقصان ہو گیا ہے۔’

یہ میرپور کے قصبے بتلاں میں درجنوں دیہاتوں میں بسنے والے سینکڑوں خاندانوں کی کہانی ہے۔ آج دن بھر یہاں سیاستدان آتے رہے، کوئی اسلام آباد سے اور کوئی مظفر آباد سے، ‘سب باتیں کر کے، تصویریں بنا کر چلے جاتے ہیں، کسی نے یہ ہدایت تک نہیں دی کسی ادارے کو اس خاندان کی فوری مدد کی جائے، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میں تین سو روپے دیہاڑی پر سات لوگوں کا خاندان پال رہا تھا، مگر کبھی خدا سے گلہ نہیں کیا، کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، مگر اب بتائیں میں ان بچوں کو کہاں لے کر جاؤں گا؟‘

پھر کچھ دیر میں ان کے گھر پاکستانی فوج کے اہلکار ایک خیمہ دے کر گئے۔ شہزور کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں دو خاندان رہتے ہیں، ‘کیا پندرہ لوگ ایک خیمے میں رہ سکتے ہیں؟‘

میر پور

زلزلے کی شدت پانچ اعشاریہ آٹھ تھی
mirpur

مکین پریشان ہیں کہ وہ لاکھوں کی مالیت سے بنے گھر دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں گے اور اب خیموں میں زندگی کیسے گزرے گی

بتلاں کے تقریباً نو دیہاتوں میں ہر طرف تباہی ہے۔ میرپور کی آبادی کا بڑا حصہ بیرون ملک خصوصاً بر طانیہ میں مقیم ہونے کے باعث یہاں تعمیر شدہ گھر مضبوط تھے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں بیشتر گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ لیکن ان میں بھی رہائش خطرے سے خالی نہیں۔

بتلاں کے گاؤں موضع سانگ کیکری میں بنے تین منزلہ گھر سے ریسکیو کا عملہ، مقامی افراد اور فوجی اہلکار سامان نکالنے میں مصروف تھے، گھر کے باہر بیٹھی بزرگ خاتون رقیہ بی بی نے کپکپاتی آواز میں بتایا کہ کیسے وہ کمرے سے بھاگ کر اس وقت باہر نکلیں جب انہیں لگا کہ یہ تین منزلیں ان پر آ گریں گی، ‘کوئی ایک کمرہ بھی ایسا نہیں جس کی دیواروں میں شگاف یا دراڑیں نہ ہوں، یہ اتنا بڑا گھر ہے، یہ رہنے کے قابل ہی نہیں رہا۔’

اس ایک چھوٹے سے گاؤں میں دو افراد ہلاک جبکہ تین درجن زخمی ہوئے ہیں۔ یہاں آباد کم آمدنی والے طبقے کا مالی نقصان کافی زیادہ ہوا ہے، اور یہی بات ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

‘میں برآمدے میں بیٹھی تھی، اتنی شدید آواز آئی جیسے کہیں بم پھٹا ہو، میں بچوں سمیت باہر کو بھاگی’، یہ بتانے والی بزرگ خاتون اپنے دو بیٹوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ اسی گھر میں مقیم تھیں جو اب زمیں بوس ہو گیا ہے۔

وہ کہنے لگیں کہ’ہم نے پائی پائی جوڑ کر بیس سال پہلے یہ گھر بنایا تھا، اب آپ ہی حکومت سے سفارش کریں کہ ہمیں رہنے کے لیے کوئی جگہ دے، ہم کہاں جائیں گے؟’۔

میر پور

ایک متاثرہ مکان کا منظر

یہاں بتلاں میں امدادی کاروائیاں جاری ہیں۔ سرکاری ادارے بھی مصروف ہیں جبکہ غیر سرکاری تنظیمیں زیادہ تندہی سے کام کرتی نظر آتی ہیں۔

نقصانات کا جائزہ لیاجارہا ہے، پاکستانی فوج گھر گھر جا کر نقصانات کی تفصیل کا ریکارڈ تیار کر رہی ہے، ریسکیو 1122 جیسے سرکاری اداروں کی آج بھی زیادہ توجہ ریلیف کی بجائے ریسکیو پر ہی رہی، تاہم غیرسرکاری تنظیمیں متاثرہ خاندانوں میں راشن اور پانی تقسیم کر رہی تھیں۔

مسلم ہینڈز نامی غیرسرکاری تنظیم کے رضا کاروں میں سے ایک ارسلان نصرت نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ٹیمیں یہاں مختلف دیہاتوں میں ریلیف کے کاموں میں مصروف ہیں،

میر پور

گھر میں دڑاڑیں پڑنے کی وجہ سے وہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں

انھوں نے کہا کہ ‘یہاں اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ، وہ پینے کا صاف پانی ہے۔ اور کھانے کے لیے خوراک ہے’۔

واضح رہے کہ زلزلے کے باعث زیرِزمین پانی میں مٹی آ گئی ہے اور یہ گدلہ پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔ علاقے میں اپر جہلم کنال میں پڑے شگاف کی وجہ سے کئی مقامات پر پانی کھڑا ہے، جبکہ یہاں ایک بیراج کو بند کر دیا گیا ہے تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp